Make family the first priority (خاندان یا فیملی کو پہلی ترجیح بناٸیں)

خاندان یا فیملی کو پہلی ترجیح بناٸیں



خاندان یا فیملی معاشرے کی بنیادی اکاٸی اور ادارہ ہے۔ معاشروں کی ترقی و خوشحالی کا تمام تر انحصار خاندانوں کی ترقی وخوشحالی پہ منحصر ہوتاہے۔ کسی ملک و قوم کا خاندانی ادارہ مستحکم ہو ٗ اپنا کردار بہت اچھے انداز میں سرانجام دے رہا ہو تو آپ سمجھیے کہ وہ ملک و قوم ضرور عروج و بلندی سے ہمکنار ہونگے۔ 
تمام اولادِ آدم ایک خاندان ہے کیونکہ تمام انسان ایک ہٕی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ مردو عورت رشتہ ازواج میں منسلک ہو کر گھرانہ تشکیل دیتے ہیں ۔ خاندان دراصل ایک ہی والد یا دادا کی اولاد پر مشتمل مختلف گھرانوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ویسے تو خاندان سے مراد مراد ایک ہی آباواجداد کی اولاد ہونا بھی ہو سکتا ہے مگر ہم  یہاں اسے کنسپٹ کو کچھ اور محدود کرکےایک دادا کی اولاد کو ایک خاندان کا نام دے رہے ہیں۔  ہماری یہاں خاندان سے مراد قریبی خونی رشتوں کا آپس میں تعلق ہونا ہے۔ 
خاندان کی ایک اور تعریف ہم اس انداز میں کررہے ہیں ۔فیملی یا خاندان سے مراد ایسے لوگوں کا ہونا ہے جو انسان کو سپورٹ فراہم کریں ٗ جہاں انسان ھنسے ٗ کھیلے ٗ اور اپنے دکھ درد اور خوشیاں تقسیم کرے۔ 

خاندان میں ہمیشہ ایک تعلق کا احساس رہتا ہے۔ انسان ایک چاہت اور اپناٸیت محسوس کرتا ہے ۔ ایک دوسرے سے ملنا ٗ بات چیت کرنا انسان کو فرحت و خوشی کے جذبات سے نوازتا ہے۔ یہ میل ملاپ انسان میں ایک طرح کا تشکر بیدار کرتا ہے۔ 

انسانوں کی سوساٸٹی میں مضبوط خاندانی نظام قاٸم کرنا عقلمند اور ذہین لوگوں کا کام ہے۔ ایک ترقی یافتہ اور روشن خیال معاشرہ اپنی کمیونٹی کے ہر فرد کو اس کے فل پوٹینشل تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتااور اسے اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔ انسانی سرماۓ کی ترقی و نشوونما کا بڑا انحصار خاندانی نظام کی بہترین تشکیل اور اس کے مثبت کردار پہ مشتمل ہے۔ 
بچوں کی اعلیٰ تربیت اور پرورش میں گھرانے اور پھر خاندان کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ ہمارے یہاں ریاست کاتصور کچھ زیادہ ہی Dominant ہے۔ مگر یاد رہے گھرانہ اور خاندان ریاست سے پہلے آتے اور وہ کام کرتے ہیں جو ریاست کے لیے کرنا ممکن نہیں ہوتے۔ اس لیے بحیثت والدین آپ خاندانی نظام کی تشکیل اور اس کے مثبت کردار کو اپنی ترجیح بناٸیں ۔ 

انسان اکیلے اس دنیا میں نہیں رہ سکتا ٗ سماج میں رہنا انسان کی مجبوری ہے ۔ جب سماج میں رہنا ضروری ہے تو وہاں انسان کے گرد محبت کرنے والے ٗ خیال رکھنے والے اور معاون و مددگار ادارے کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ یہ ادارہ خاندان ہوسکتا ہے جو آپ کے تحفظ ٗ ترقی اور نشوونما کو یقینی بنا سکتا ہے۔ ہمارے کلچر میں رفتہ رفتہ خاندانی ادارہ کمزور ہو کر گھرانے تک محدود ہوچکا ہے ۔ اس کی وجوہات وقت کی تیز رفتاری اور مغربی تہذیب کے اثرات ہیں ۔ 
ہمارے ملک میں ہماری مضبوطی دراصل خاندانی نظام کی مرہونِ منت ہے۔ دیگر ادارے بے حد کمزور ہیں ایسے میں خاندانی نظام کی تباہی ہمارے معاشرے کی تباہی میں خدانخواستہ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک عرصے سے پاکستان میں خاندانی نظام اور گھرانہ کچھ عناصر کاہدف بنے ہوۓ ہیں ۔ بحیثت سربراہ گھرانہ آپ کا کام خاندان کے ادارے کو مضبوط بنانا ہے۔ 
مشرق و ہو یا مغرب بہترین انسانی سرماۓ کی تشکیل آج بھی مضبوط خاندانوں میں ہو رہی ہے ۔ خاندان ریاست سے بہت پہلے وجود میں آنے والا ادارہ تھا ۔ خاندانوں کے ملنے سے قبیلے اور قبیلوں کے ملنے سے ملک یا ریاستیں وجود میں آتی ہیں ۔ یہ ترتیب ہمیشہ انسانوں کے فاٸدے میں رہی ہے۔ 
 آٸیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ خاندانی نظام کو کیسے مضبوط اور فاٸدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاندان ہونے کا مطلب قطعاً ایک ہی گھر میں رہنے یا جواٸنٹ فیملی سسٹم کا نام نہیں ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے اپنے فاٸدے نقصانات ہیں جو یہاں ہمارا موضوع نہیں ہیں ۔ مختصراً میں ذاتی طور پہ مشترکہ خاندانی نظام کے زیادہ حق میں نہیں ہوں ۔ شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو ضرور الگ گھر میں منتقل ہونا چاہیے چاہے وہ کسی گھر کا الگ پورشن ہی کیوں نہ ہو ۔ شادی کے بعد مناسب آزادی اور خودمختاری بہت زیادہ ضروری ہے۔ ازواجی ساتھیوں کو یہ آزادی لازمی اور ترجیحی بنیادوں پہ ملنی چاہیے۔ 
اس آزادی کا دوسرا پہلو البتہ بہت منفی ہے ۔ وہ پہلو شادی کے بعد اپنے خاندان سے مکمل کٹ جانا ٗ والدین ٗ بھاٸی بہنوں اور رشتہ داروں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلینا ہے ۔ اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ آپ بے شک الگ گھروں میں ٗ الگ شہروں حتیٰ کہ الگ ملکوں میں بھی رہ رہے ہوں لیکن خاندان آپ کی بنیادی ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔ خاندان کی بہتری ٗ ترقی اور خوشحالی آپ کا ہدف ہونا چاہیے۔ اسلام اسی لیے رشتہ داری و قرابت داری پہ بے حد ضرور دیتا تو اور قطع تعلقی سے سختی سے منع کرتا ہے ۔ اسلام میں تبلیغ ہو یا خیرات ہمیشہ گھر سے شروع کرنے اور پھر خاندان تک پھیلانے کا حکم ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام صدیوں سے راٸج رہا ہے ۔ تعلیم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے خاندانی نظاموں میں بہت سی خرابیاں بھی دراآٸی ہیں ۔ ان خامیوں کو دور کرنے اور ایک نٸے ضابطے سے خاندانوں کو منظم کرنے اور لیڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ 
عموما ً خاندانی نظام میں اندورنی سیاست ٗ چپقلش ٗ غیر ضروری مسابقت اور حسد جیسی بیماریاں عام ملتی ہیں جو شدید نقصان کا باعث بنتی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام عوامل کے پیچھے عورتوں کا کردار مردوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔اس ذہنیت کو بدلنے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم پہلے بات کرچکے ہیں کہ سماج میں رہنا ہماری مجبوری ہے اور سماج میں خاندانی داٸرہ ہمیں تحفظ اور مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ 
کیا ہی اچھا ہو اگر ایک ہی خاندان کے گھرانے مل کر کسی ایک فرد کو جمہوری طریقے سے اپنا سربراہ بنا لیں ٗ خاندانوں کے فیصلے باہم مشاورت اور رضامندی سے ہوا کریں ۔ گھرانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی مکمل آزادی ہو تاہم وہ دوسرے گھرانوں کو اعتماد میں لے لیں ۔ 

اس نظام میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجاۓ ایک دوسرے کی ترقی کے لیے معاون و مددگار بنا جاۓ ۔ اپنی زندگیاں اپنی مرضی اور آزادی سے جینے کے باوجود دوسرے گھرانوں کے دکھ درد اور خوشی غمی میں ساتھ رہا جاۓ ۔ کمزور گھرانوں کی مدد کی جاۓ ۔اور سب سے بڑھ کر پورے خاندان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کو بنیادی مقصد اور اولین ترجیح قرار دیا جاۓ ۔ یہ نقطہ ہمارے خیال میں خاندانوں کی توجہ کا محور ہونا چاہیے۔ خاندان کے سربراہ کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے خاندان کے تمام بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت ہورہی ہو۔ 

ہم سب اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے اور اپنی تقدیروں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔شرط صرف یہ ہےکہ ہم ایک مددگار معاشرہ اور ماحول فراہم کرسکیں۔ بطور فرد اپنے گھرانے اور خاندان کو کامیاب اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے شعوری پلاننگ کریں ۔ اپنے اہداف طے کریں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کیجیے۔ 
خاندان معاشرے کی بنیادی اکاٸی کے طور پہ اپنا کردار درست انداز میں ادا کرے اور افراد کی ڈویلپمنٹ پہ توجہ دے تو معاشرہ بہترین خصوصیات کے حامل لوگوں سے بھرا جا سکتا ہے۔ خاندان سے بہتر تحفظ ٗ مدد ٗ پیار ٗ حوصلہ اور عزت کوٸی دوسرا ادارہ انسان کو فراہم نہیں کرسکتا۔ 

ہمارا پیار اور انس ہماری فیملی سے ہونا ازحد ضروری ہے ۔ اس کو کسی حد تک زندگی کا محور بھی ہونا چاہیے۔ آپ کے کارنامے اپنے خاندان کے لیے  اس قابل ہوں کہ آپ کے خاندان کو آپ پہ فخر ہو ۔ آپ اپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں سب سے پہلے اپنے خاندان کو شریک کریں ۔ اکیلے آگے بڑھنے اور دوسروں کو پیچھے دھکیلنے جیسی منفی سوچ سے چھٹکارہ حاصل کریں ۔ 

تمام گھرانے مل کر ایک ادارے کی طرح اپنے خاندان کے لیے بھی وژن طے کریں ۔ ترقی و نشوونما کے لیے اھداف متعین کریں ۔ اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے اور ان کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔ یہ دراصل ایک اخلاقی و سماجی ذمہ داری ہے جس کی اداٸیگی ہم پہ فرض ہے۔ جس خاندان میں سارے لوگ مثبت سوچ سے آگے بڑھیں گے اس 
خاندان کو ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع ملیں گے۔
ہماری فیملی دراصل نوح علیہ سلام کی کشتی کی طرح ہوتی ہے ۔ جب ہر طرف طوفان اور موت کا رأج ہوتا ہے تب خاندان کی کشتی ہمیں محفوظ رکھتی ہے۔ ہر طرح کے طوفان ٗ سیلاب ٗ جھکڑ ٗ آندھیاں ان سب سے ہم محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ 
اس کشتی پہ ہم محفوظ اور پرسکون رہتے اور ایک ہونے کے احسا س سے مالا مال رہتے ہیں۔ ہمیں اس کشتی کو ایک دوسرے کے لیے پرسکون و محفوظ بناتے رہنا چاہیے۔ 
سچ یہ ہے کہ جن خاندانوں کو اچھی قیادت مل جاتی ہے وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے چلے جاتے ہیں ۔  اپنے خاندان کے بہترین فرد  اور دوسروں کے لیے رول ماڈل بنیں ۔ خاندان صرف اہم نہیں بلکہ شاید سب سے اہم  ہے۔ 
اسے اپنی ترجیح بناٸیے اور اپنوں کے ساتھ مل کر زندگی کے سفر میں آگے بڑھیں۔ آٸیے مل کر خاندانوں کو مضبوط کریں ٗ بہترین اور مثالی تعلقات قاٸم کریں اور مل کر ایک دوسرے کو کامیاب بناٸیں۔ 
اپنے بچوں میں بھی فیملی کو بنیادی ترجیحات میں سے ایک ترجیح کے طور پہ متعارف کرواٸیں ۔
اپنے خاندان میں چند مثبت روایات کی تشکیل بھی کریں ۔ ان روایات میں بڑوں کا احترام ٗ چھوٹوں سے محبت و شفقت ٗ اچھی اور معیاری گفتگو ٗ خوشی غمی میں شرکت ٗ ایک دوسرے کی مدد اور تعاون وغیرہ شامل ہیں ۔

ثاقب محمود عباسی

Comments