جسٹین پیری جمیز ٹروڈو (Justin Trudeau)


جسٹین پیری جمیز ٹروڈو کنییڈا کے تٸیسویں وزیراعظم بنے اور تاحال دوسری ٹرم میں اپنے ملک کو لیڈ کر رہے ہیں ۔ ٢٠١٣ میں لبرل پارٹی

 کی قیادت سنبھال کے ٢٠١٥ کے الیکشن میں پارٹی کو اکثریت دلوا کر جوۓ کلارک کے بعد دوسرے کم عمر ترین وزیراعظم بنے۔ ان سے پہلے ان کے والد بھی اس عہدے پر رہ چکے تھے۔ ان کے والد کے اباواجداد فرانسیسی جبکہ والدہ کے سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتے تھے۔۔

جسٹن نے اپنی آپ بیتی Common Ground کے نام سے لکھی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کا مطالعہ کر رہاتھا ۔ انہوں نے بچپن کے حالات کو تفصیل سے لکھا ہے ۔ جہاں ایک طرف وہ ملک کے وزیراعظم کے بیٹے تھے وہیں ان کے والدین میں جب وہ دس سال کے تھے طلاق ہو گٸی تھی ۔ اس لحاظ سے ان کا بچپن خاصا دلچسپی کا باعث ہے۔ پیرنٹنگ کے موضوع پہ دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں بہت سے اسباق ہیں۔


(Justin Trudeau's childhood) جسٹن ٹروڈو کا بچپن

1971 کرسمس کے دن اوٹاوا میں پیدا ہونے والے جسٹن پیری جیمز ٹروڈو کنییڈا کے پندرہوریں وزیراعظم پیری ٹروڈو اور انکی بیوی مارگریٹ کی پہلی اولاد تھے ۔ ان سے دو سال چھوٹے ساچا اور پھر ماٸیکل عمروں میں معمولی فرق کی وجہ سے وہ بھاٸیوں کے ساتھ دوست اور ہمجولی بھی تھے۔ جسٹن کا کہنا ہے کہ میں اپنے تین سالہ بھاٸی کو ریسلنگ سکھاتا تھا جبکہ ساچا اپنے چھوٹے بھاٸی ماٸیکل کے گرد قلابازیاں کھاتا تھا جب ابھی وہ گہوارے میں تھا ۔
ہماری اس بے پناہ انرجی کو دیکھتے ہوۓ ھمارے والدین نے 24سسیکس کی بیسمنٹ میں ہمارے لیے گیم میٹس بچھا دیے جہاں ہم اپنی نوعمرانہ ہاٸپر ایکٹوانرجی کو مفید طریقے سے استعمال کرتے۔
گھر کے قریب ہی ایک جھیل تھی جہاں اکثر وہ اپنے والد کے ساتھ جاتے تھے ۔ یہاں پر ساحل سے کوٸی سو میٹر دور ایک چھوٹا سا جزیرہ ھوتا تھا ۔سات سالہ جسٹن کو والد یہ فاصلہ تیر کر پار کرنے اور واپس آنے پہ اکساتے جس سے ان کا مقصد بچوں میں جسمانی مضبوطی اور برداشت پیدا کرنا ہوتا۔
اسی طرح وہ نقشے کی مدد سے گھر کے قریب واقع ایک پارک یا اس کے قریب کسی جگہ پر انگلی رکھتے اور بچوں کواس جگہ پہنچنے کے لیے کہتے ۔ان کے پاس آدھے گھنٹے کا وقت ہوتا تھا جس میں مطلوبہ جگہ ڈھونڈنا ہوتی تھی۔ ان کےوالد کی سمت کے تعین کی حس بہت اچھی تھی ۔ اس جگہ اکثر لوگ جنگل میں رستہ بھول جاتے اورپیری ٹروڈو کنیڈین وزیراعظم انہیں رستہ سمجھاتے۔
موسم کے بدلنے سے ہماری آوٹنگ کے معمول میں فرق نہیں پڑتا تھا ۔ برفباری کے دوران ہم سکینگ (skiing) کے علاوہ برف کی سخت تہہ پر سکیٹنگ بھی کرتے اور مختلف کرتب دکھاتے۔
میں جب آٹھ یا نو سال کی عمر کو پہنچا تو مجھے اپنے والد جو ملک کے وزیراعظم تھے کے کیریر کے بارے میں کچھ اندازہ ہوا ۔میری والدہ اکثر شوق سے یہ تذکرہ کرتی ہیں کہ کیسے میں اپنے والد کو باس آف کنیڈا کہا کرتا تھا ۔ مجھے اندازہ کرنے میں مشکل پیش آتی تھی کہ آخر میرے والد کرتے کیا ہیں جبکہ اپنے دوستوں کے والدین کے بارے میں مجھے اندازہ تھا کہ ان میں سے کوٸی سٹور کیپر ہے ٗ کوٸی ڈاکٹر ہے اور کوٸی ریڈیو پہ اناٶنسر ہے ۔
ایک دن جب میرے والد نے کہا کہ 24 Sussex (جہاں ہم رھتے تھے) ہمارا گھر نہیں ہے یہ میرے لیے بہت عجیب تھا ۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کا ہے۔ مگر میں اور زیادہ کنفیوز ہوگیا تھاکہ کیا میرے والد حکومت کے انچارج نہیں ہیس ؟ تاہم 1979 میں جب لبرل پارٹی الیکشن ہاری اور ہمیں چند بلاک دور اپوزیشن لیڈر کے گھر منتقل ہونا پڑا تب مجھے اندازہ ہوا کہ کنییڈا کے اصل باس کنییڈا کے عوام ہیں ۔
وقت کے ساتھ میں مشکل اور پیچیدہ موضوعات کو بھی کچھ کچھ سمجھنے لگ گیا تھا جو ہمارے والد ہم سے ڈسکس کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک بار انہوں نے ہم بھاٸیوں سے آزادی اور حقوق کے 1982 کے چارٹر پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ اس وقت میں دس سال کا تھا تاہم یہ بات سمجھتا تھا کہ جمہوریت کے بنیادی اصول کیا ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ حکومت کا بننا اور ختم ہونا عوام کی مرضی(Voter'will)پر منحصر ہے ۔
ھمارے والد اکثریت طبقے کو جمہوریت سے ملنے والی طاقت کو اکثریت کے جبر سے موسوم کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اقلیت کے بنیادی حقوق کو اکثریت سے خطرہ نہیں ہونا چاھیے یہی اصل جمہوریت ہے۔ جمہوریت اور لبرل ازم کے یہی اسباق آگے چل کر میرا سیاسی بیانیہ بنے۔
جسٹن اپنے والد جنہیں وہ پاپا کہتا سے ھمیشہ فرانسیسی زبان میں باتیں کرتا۔ وہ کہتا ھے کہ والد کی جاب منفرد تھی لیکن پھر بھی وہ ہمارے لیے عام باپ جیسے ہی تھے۔ وہ وقت نکال کر ہمارے ساتھ کھیلتے ٗ ہمیں لطیفے اور کہانیاں سناتے اور کبھی کبھی سپیشل ٹریٹ کے طور پہ ہمیں اپنے ساتھ وزیراعظم آفس اور پارلیمنٹ بھی لے جاتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ھوتا کہ میں ساچا اور ماٸیکل وہاں گھنٹوں چھپن چھپاٸی اور اس طرح کے دوسرے کھیل کھیلتے۔ آج بھی جب میں وہاں سے گزرتا ہوں تو بچپن کے گزرے ان یادگار لمحات کو بھلا نہیں پاتا ۔
میں آج بھی ان دنوں کو یاد کرسکتا ہوں جو ھمارے والد کے ساتھ اوٹاوا سے باہر گزرتے تھے ۔ اوٹاوا میں وہ بطور وزیراعظم اور بطور والد اپنے رولز کو الگ الگ اور ذمہ داری سے پورا کرتے تھے تاہم جب ہم کہیں باہر جاتے تو والد کا اصلی روپ قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔
بیرونی دوروں میں جب وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا شروع ہوۓ تو اکثر ناشتے یا کھانے کی میز پر جب میں کھانے میں مشغول ہوتاوالد کے ایڈواٸزر ان کو بریفنگ دے رہے ھوتے ۔ اس دوران مجھے کٸی عالمی راہنماٶں سے ملنے کا موقع بھی ملا جن میں برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر ٗ جرمن چانسلر ہیلماٹ سیکمڈ اور سویڈن کے وزیراعظم اولوف پام قابل ذکر ہیں۔ سرکاری تقریبات میں بھی اکثر مجھے بیٹھنے کے لیے پہلی قطاروں میں جگہ مل جاتی ۔ 1982 میں ہم مغربی یورپ کے دورے پہ تھے جب ہم نے روسی صدر لیونیڈ بریزنیف کی وفات کی خبر سنی ۔
اگلے دن جب ہم ماسکو میں اٸیرپورٹ سے اپنے ہوٹل جارہے تھے جب کار میں میرے والد روس میں مقیم کنییڈین سفیر سے روس کی بدلتی سیاسی صورتحال پہ بات کر رہے تھے ۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کہ میرے والد چیزوں کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔
ایک بچے کے لیے ھتیاروں کی دوڑ یا تجارتی معاہدوں کو سمجھنا مشکل کام تھا تاہم مجھے یہ سمجھ ضرور آگٸی کہ خارجی تعلقات میں ذاتی تعلق بہت اہمیت رکھتا ہے جب میرے والد کو ایشو سے زیادہ ان کے ہم عصر سربراہ حکومت کے بارے میں بریفنگ دی جاتی۔
وہ موقع میرے لیے بہت دلچسپی کا ہوتا جب میرے والد بیرونی دنیا کے راہنماٶں سے اپنے ملک میں ملاقات کرتے ۔ ایسی ہی ایک ملاقات اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے بھی ہوٸی تھی جنہوں نے مجھے ایک نظم سناٸی تھی۔ اسی طرح ایک دوپہر شہزادی ڈیانا اور پرنس چارلس ہمارے گھر آٸے ۔۔
ان دوروں اور ملاقاتوں کی سب سے اہم بات جس نے مجھے فاٸدہ دیا میرے والد کے فیصلے کرنے کی مہارت تھی ۔ وہ ہمیشہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی راۓ اور خیالات دریافت کرتے اور ان کے خیالات کو چیلنج کرتے ۔ ایسے میں وہ بہت کم اپنی راۓ یا خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ یہ طریقہ میرے والد کے آٹوکریٹک فیصلہ ساز شخصیت سے لگا کھاتا تھا ۔ ان دوروں اور لمبی پروازوں کے دوران سیکھنے والےاس فیصلہ سازی کے سٹاٸل کو میں نے اپنا لیڈرشپ سٹاٸل بنا لیا۔
اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ہمارے والد اپنے بچوں کے ساتھ مصروف رہنے کو بہت انجوأۓ کرتے ۔ انہیں اپنی پدرانہ ذمہ داریاں ادا کر کے حقیقی لطف ملتا تھا۔ وہ ہمیں لوریاں اور بیڈ ٹاٸم سٹوریز سناتے ۔ کھیلتے ہوۓ نظمیں اور گیت گاتے۔ دن کے اوقات میں والد ہمیں مختلف جسمانی سرگرمی سے واقفیت دلاتے ۔ انہوں نے ھمیں کشتی کھینا(Rafting ) ٗ چٹانوں پہ چڑھنا ٗ بندوق اور تیرکمان سے نشانہ لگانا ٗ تیرنا اور گہرے پانیوں میں غوطے لگانا سکھایا ۔ ھیرنگٹن جھیل میں ہم سردی گرمی ہر موسم میں چارچار گھنٹوں کی جسمانی سرگرمیاں کیا کرتے تھے۔
والد ہمیں میوزک ٗ لٹریچر فلسفے اور ھسٹری سے بھی متعارف کرواتے ۔ ہم تینوں بھاٸیوں نے جوڈو کی کلاسسز بھی جواٸن کی جس نے ہمیں محفوظ طریقے سے گرنا اور اٹھنا سکھایا ۔ والد نے مجھے باکسنگ بھی سکھاٸی جو اب تک میری عملی سرگرمی کا حصہ ہے۔
میرے والد کا ایکٹو پیرنٹنگ سٹاٸل بعض دفعہ ان کے کولیگز کو حیران کر دیتا لیکن وہ بطور وزیراعظم بھی ایک باپ کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کوٸ کوتاہی نہ برتتے۔
وزیراعظم کا بیٹا ھونا ہمارے لیے تفریح کا سامان بھی ہوتا تھا ہم اکثر سکیورٹی ایجنٹس کو چکمہ دے کر پریشان کرتے ۔ ایسے ہی ایک موقع پر میرے والد نے مجھے سخت ڈانٹ پلاٸی کہ کیسے تم ایک سرکاری ملازم کی مشکلات میں اضافے کرتے ہو ۔ ”یہ دوسروں کی مکمل تذلیل ھے اور میں نے تمیں دوسروں کی عزت کرنا سکھایا ہے۔“
دوسرے بچے اکثر بڑوں کی تحقیر کرتے مگر ھمارے والدین خصوصا ہمارے والد کبھی ایسے رویے کو برداشت نہیں کرتے تھے جس سے کسی فرد کی تذلیل یا تحقیر کا پہلو نکلتا ۔ ہم ایک مراعات یافتہ ماحول میں ضرور پلے بڑھے مگر جب بات توقعات اور ڈسپلن کی آتی تو ہمارے والدین ہم سے سختی سے پیش آتے اور قطعا نرمی نہ برتتے۔
میری والدہ ہمیشہ اچھے اخلاق کی اہمیت پہ زور دیتں ۔ وہ کہتیں اچھا اخلاق تمارے لٕیے رستے کھولتا ہے ۔ وہ ہمیں سکھاتی کہ دوسروں میں ہماری دلچسپی حقیقی ہونی چاھیے کیونکہ دکھاوا فوراً پہچان لیا جاتا ہے ۔
ایمانداری اور دوسروں کی عزت ہم نے اپنے والدین سے سیکھی ۔ ایک موقع پر جب میرے والد مجھےایک میٹنگ میں لے گٸے جہاں انہیں ایک اپوزیشن لیڈر سے ملناتھا ۔ میں نے ان کے بارے میں مشہور ایک لطیفہ سنا دیا جس سے وہ تو محظوظ ہوۓ تاہم والد ناراض ہوۓ ۔ واپسی پہ وہ مجھے معذرت کے لیے ان کے گھر لے گٸے تب میں آٹھ سال کا تھا۔
بعض دفعہ ہمارے والدین ہماری توجہ دوسروں کی خوبیوں پہ مرکوز کرواتے تاکہ ہم انہیں وہ عزت دیں جس کے وہ حق دار ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب میں نے اپنی کام والی خاتون ھیلڈا سے لفظی بدتمیزی کی تو میری والدہ نے مجھے الگ لے جا کر کہا ۔
” جسٹن تم اپنی زندگی میں بادشاہوں ٗ بیگمات ٗ شہزادوں ٗ صدور مملکت اور بہت سے طاقتور افراد سے ملنے والے ہو مگر یاد رکھنا ان کے جو بھی عہدے اور القابات ھوں ٗ ان میں سے اکثر میں انسانیت کا وہ عشر عشیر بھی نہیں ھوگا جو ھیلڈا میں ہے۔ “
میرے بچپن کی ساری ہی یادیں خوشگوار نہیں ہیں ۔ میں ابھی چھوٹا ہی تھا جب میرے والدین کے آپس کے ناخوشگوار تعلقات میرے علم میں آ گٸے تھے۔(1977 میں جب جسٹن پانچ سال کا تھا ٗ اس کےوالدین میں علیحدگی ھوگٸی تھی تاہم قانونی طور پہ وہ1984میں الگ ہوۓ۔اسی سال کے آخر میں اس کے والد نےسیاست سےعلیحدگی اختیار کر لی تھی۔)اس کی وجہ میرے والد اور والدہ کی عمروں کا تیس سالہ فرق ٗ میری والدہ کا باٸی پولر ڈس آرڈر ٗ اور میرے والد اور والدہ کے مختلف مزاج کے ہونے کا ہے ۔۔ میرے والد ایک منطقی اور حقیقت پسند ٗ ٹھنڈے مزاج کے آدمی جبکہ میری والدہ اس کے بالکل برعکس تھیں ۔
علیحدگی کے بات کچھ عرصہ والدہ نے ہم سے مکمل قطع تعلقی کی کوشش کی تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔ بعد میں البتہ وہ ہمارے ہاں آتیں اور ہم بھی ان کی طرف جاتے رہے۔ میری والدہ نے بعد میں دوسری شادی کرلی تاہم میرے والد نے طلاق کے کچھ عرصہ بعد سیاست چھوڑ دی اور اپنا وقت ہمیں دینے لگے۔
بہت سے بچے والدین کے درمیان طلاق کی وجہ بنتے ہیں جبکہ میں نے بچہ ھوکربھی پوری کوشش کی کہ وہ الگ نہ ھوں اپنی ناکامی کا مجھے ہمیشہ افسوس رہا۔
والدین کی آپس کی تکرار اور تلخی مجھے بہت اذیت دیتی اور میں چھپ جاتا ۔ بعد میں میں نے مطالعے کے ذریعے اس اذیت سے فرار کا طریقہ اپنا لیا۔ دس سال کی عمر میں ہی میں بچوں کے لٹریچر کا بڑا حصہ پڑھ چکا تھا ۔ تیرہ سال کی عمر میں میں نے سنجیدہ مطالعہ شروع کردیا ۔ فکشن پڑھنے کی عادت مجھے شروع سے رہی جس نے مجھے سکھایا کہ ہمارے اردگرد رہنے والے عام لوگ بھی اپنی زندگیوں اور کہانیوں کے ہیرو ہوتے ۔ انساٸیکلوپیڈیا آپ کو حقائق سے متعارف کرواتے ہیں تاہم ایک کہانی ہی آپ کو انسانوں کے ذہنوں میں اترنا سکھاتی ہے۔
میں نے بہت متفرق مطالعہ کیا مگر مجھے وہ کتابیں ہمیشہ اچھی لگیں جو یہ بتاٸیں کہ ہر انسان اپنی زندگی میں بڑے اور عظیم کام کرسکتا ہے ۔ یہ دراصل والدین کی اس تربیت سے بھی لگا کھاتا تھا جس میں انہوں نے ہمیں سکھایا کہ کسی کو اس کی دولت یا ظاہری ٹھاٹ باٹ کے بجاۓ ہمیشہ اس کے انسان ہونے پہ اسے عزت دو۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی میں مہینٕے میں دو سے تین ناولز کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔
والدہ کے والد سے الگ ہونے کا مجھے بہت عرصہ قلق رہا تاہم جب والدہ کی بیماری کا مجھے ادراک ہوا تو میں نے انہیں معاف کردیا ۔۔ بعد کے سالوں میں ھمیشہ میرا ان سے اچھا تعلق رہا اور آج وہ میرے بچوں کی پرورش اور تربیت میں بہت دلچسپی لیتی ہیں ۔ والدین کے درمیان طلاق نے میری زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں تاہم یہ والدین کی اچھی پیرنٹنگ تھی جس کی بدولت میں اپنی زندگی میں ایک مستحکم مزاج اور کامیاب انسان ثابت ہوا ۔ بقول میری والدہ کے کہ میں اور تمارا باپ اچھے میاں بیوی تو ثابت نہیں ہوسکے تاہم اچھے والدین ضرور بنے۔



(ترجمعہ و تلخیص ثاقب محمود عباسی )

 Prime Minister Justin Trudeau | 

Prime Minister of Canada |  

sophie grégoire trudeau

Comments

  1. بہت اچھی تحریر ہے ہے

    NICE SHARING - KEEP IT UP ♥️

    Plz visit my blog @ "Best Online Articles" THANKS

    https://letsgo4info.blogspot.com

    ReplyDelete
  2. Replies
    1. please click on English translate. it will translate to English. thanks of Comments

      Delete
  3. very good content about canadian politician and leader of canada...
    liked your content..

    You can also visit my blog by clicking below..


    Dr. Shashi Tharoor

    ReplyDelete

Post a Comment