جاپان کا نظام ِ تعلیم (Japan's education system)

جاپان کا نظام ِ تعلیم 


جاپان کا تعلیم کا نظام دنیا بھر میں ممتاز  حیثیت رکھتا ہے۔  جاپانی معاشرہ تعلیم کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ جاپانی نظام میں اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی دوسرے ملک یا تہذیب سے ماخوذ نہیں اور نہ ہی کسی اور کلچر یا تہذیب سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے۔ جاپانیوں کا  نظام تعلیم مکمل طور پر ان کی  اقدار،کلچر اور نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نظام کے پیشِ نظر ایک ترقی یافتہ ٗ نظم و ضبط کی پابند بہترین کلچر و تہذیب کی حامل قوم کی تعمیر ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کو امریکہ کے ہاتھوں شکست ہوٸ تھی ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد جاپان نے غیرمشروط شکست تسلیم کرلی تھی۔ امریکی قبضے کے بعد جاپان پر ذلت آمیز شراٸط مسلط کردی گٸیں ۔ جاپان نے تمام شراٸط تسلیم کرلیں حتیٰ کہ اس نے اپنی فوج نہ رکھنے کی شرط بھی قبول کرلی  ۔ البتہ جاپانیوں نے اپنی ایک شرط رکھی اور وہ اپنے نظام تعلیم کو بیرونی اثر و دباٶ سے آزاد رکھنے کی تھی۔ 
وقت نے پھر دیکھا کہ ایک تباہ حال قوم نے خود کو تعلیم و ترقی اور تہذیب و کلچر کے میدان میں آگے بڑھا کر دنیا کی اولین معیشتوں میں اپنا نام بنالیا۔ آج بھی جاپانی پراڈکٹس مارکیٹ میں بہترین سمجھی جاتی ہیں ۔ 
جاپان میں ابتداٸی یا پری اسکولز کی سطح پہ بچوں کو کوٸی کتاب نہیں پڑھاٸی جاتی ۔ پانچ سال کی عمر تک بچے کو اسکولز میں صرف آداب و اطوار ٗ نظم و ضبط اور اچھی عادات سکھاٸی جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی قوم دنیا میں وقت کی سب سے زیادہ پابند ٗ ڈسپلنڈ اور صاف ستھری سمجھی جاتی ہے۔ 
جاپان میں بچوں کو گھروں اور اسکولز میں خود صفاٸی کرنا سکھایا جاتا ہے ۔یہی وجہ یے کہ جاپان میں صدر سے ایک عام آدمی تک ہر کوٸی اپنے کام کی جگہ کو خود صاف کرتا ہے۔ 

جاپان میں باقاعدہ اسکولنگ چھ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ چھٹی تک تعلیم حاصل کرنا لازمی یے ۔  لازمی تعلیم بالکل مفت ہے اور حکومت اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ 

ہر صبح بچے  عموماً حکومت کی طرف سے فراہم کردہ پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوں کے ذریعے گھر سے سکول جاتے ہیں۔ جونیر کلاسوں کے تمام طلباء سکول یونیفارم پہنتے ہیں۔ صبح جب بچے سکول جارہے ہوتے ہیں تو وہ منظر دیکھنے کے لاٸق ہوتا ہے۔ 
یہاں بچوں کو باقاعدگی ٗ وقت کی پابندی اور نظم و ضبط کی شروع سے ہی تربیت دی جاتی ہے ۔ اسی لیے بچے نہ تو  سکول سے چھٹی کرتے ہیں اور نہ ہی لیٹ ہوتے ہیں۔
سٹوڈنٹس  کو لنچ  سکول کی طرف سے فراہم  کیا جاتا ہے۔  ٹیچرز اور سٹوڈنٹس  ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور اس طرح ان کے نہ صرف  باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں بلکہ بچے اساتذہ کی موجودگی میں کھانا کھانے کے آداب اور ٹیبل مینرز بھی سیکھتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد طلبہ اور اساتذہ مل کر صفاٸی کرتے ہیں۔


جاپان میں لازمی تعلیم چھٹی تک ہے تاہم 
 تاہم 95 فیصد بچے اعلیٰ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں گریجویشن کرنے والوں کی تعداد پچانوے فیصد ہوتی ہے۔ 

جاپان میں قومی نصابِ تعلیم نافذ ہے۔ وزارت تعلیم نصاب تیار کرتی اور اس کے نفاذ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ یوں قومی مفاد اور ضرورتوں کا عکاس یکساں نظامِ تعلیم اور نصاب تشکیل پاتا ہے جس کی مدد سے ایک قوم تیار ہوتی ہے۔ 
 پرائمری سکول کے نصاب میں لازمی مضامین میں جاپانی زبان ٗ ادب ٗ ریاضی ٗ معاشرتی علوم میوزک ٗ آرٹ اور دستکاری کے مضامین  شامل ہوتے ہیں ۔ دوسرا اہم حصہ اخلاقی تعلیم اور تربیت پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جاپان میں بچوں کی جسمانی تربیت پر بے حد زور دیا جاتا ہے۔ ہر بچہ کسی نا کسی جسمانی کھیل میں ضرور حصہ لیتا ہے۔ 

جاپان میں پراٸمری لیول پہ روایتی طریقہ امتحانات کے بجاۓ  اساتذہ سال بھر کلاس روم میں جائزہ ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں تاکہ بچے کی صلاحیتیں  اور قابلیت جانچی جا سکے۔ جبکہ سکینڈری لیول پہ  سال میں پانچ مضامین کے پانچ  سٹینڈرڈاٸزڈ ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ملک بھر میں ایک وقت میں لیے جاتے ہیں ۔  یہ ٹیسٹ پیپرز ضلعی تعلیمی انتطامیہ تیار کرتی ہے اور سکول کے اساتذہ ان کو چیک کرتے ہیں۔
جاپان کی موجودہ معاشی واقتصادی ترقی دراصل اس کے نظام تعلیم ہی کی مرہونِ منت ہے۔ دنیا میں جو قوم بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتی ہے اور پھر اس پہ پوری توجہ دیتی اور اپنے وساٸل خرچ کرتی ہے وہ دنیا کی صفِ اول کی اقوام میں شامل ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے بھی جاپان کی مثال میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہمیں بھی ہر صورت تعلیم کو اپنی بنیادی ترجیح بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں بحیثیت قوم و ملک اپنا نام و مقام بنا سکیں ۔
ثاقب محمود عباسی

Comments

Post a Comment