ہوم اسکولنگ (Home schooling)


ہوم اسکولنگ

“ایک پھوہڑ ماں اپنے بچوں کو ایک ماہر تعلیم اور پی ایچ ڈی ٹیچر کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر تعلیم و تربیت دے سکتی ہے”
                                           (ماہرینِ تعلیم) 
ہوم اسکولنگ کا مطلب بچوں کو گھر میں یا سکول کے علاوہ کسی دوسری جگہ تعلیم دینے کے عمل کو کہتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ ایک غیررسمی ذریعہ تعلیم ہے جس میں بچہ اپنے والدین ٗ ٹیوٹر یا کسی آن لاٸن استاد سے گھر بیٹھے پڑھتا یا سیکھتا ہے۔ 
ہوم اسکولنگ کی ٹرم امریکہ سے آٸی جبکہ ہو م ایجوکیشن کی اصطلاح یورپ میں استعمال کی جاتی ہے۔ 
ہوم اسکولنگ دراصل بچے کو سکول کے رسمی ماحول میں بھیجنے سے پہلے دی جانی والی تعلیم کو کہتے ہیں ۔یہ ابتداٸی سالوں سے لے کر آٹھویں گریڈ تک دی جا سکتی ہے۔  والدین ٗ استاد اور کمیونٹی مل کر یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہوم اسکولنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ کمیونسٹ نظام کے حامل ممالک میں اس پہ پابندی ہے۔
ہوم اسکولنگ سے تعلیم یافتہ بچوں کے اوسطاً نتاٸج سکول جانے والے بچوں سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ تاہم ہوم اسکولنگ پڑھے لکھے ٗ باشعور ٗ تربیت یافتہ اور پڑھانے کا شوق رکھنے والے والدین کے لیے ہی قابلِ عمل ہے یا پھر اعلیٰ وساٸل کے حامل والدین جو اساتذہ کو گھر بلا کو بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرسکیں۔ 

 دنیا بھر میں دن بدن ہوم اسکولنگ کا رحجان بڑھتا جارہا ہے ۔ امریکہ میں اس وقت 25 لاکھ بچے ہوم اسکولنگ سے فیضیاب ہورہے ہیں اسی طرح کنیڈا میں 80 ہزار سے زاٸد بچے ہوم اسکولنگ کے ذریعے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ہوم اسکولنگ میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ایسی کٸی مثالیں موجود ہیں جن میں بچوں نے گھر میں تعلیم حاصل کرکے دنیا کو ورطہ ٕ حیرت میں ڈال دیا۔ 
ہوم اسکولنگ کے حامی لوگ عموماً  نامیاتی خوراک، قدرتی ماحول اور فطری طرزِ زندگی کے داعی ہیں۔ ان کے بقول گھر سے بہتر کوئی درسگاہ نہیں۔ روایتی کلاسوں کے بجائے غیر روایتی ٗ غیررسمی ٗ  قدرتی ماحول اور امتحانات کی جگہ پراجیکٹ پر مبنی تجرباتی تعلیم (ایکسپیریمنٹل لرننگ) میں ہی بچے کا بہترین مستقبل چھپا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم ذرا ایک بار تعلیم کی تعریف کرتے ہیں ۔
نہایت سادہ اور آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”جب ایک نسل اپنی اگلی نسل کو اپنا عقاٸد و نظریات دین و الہامی علوم ، اقدار و  روایات، ، تہذیب و تمدن، تاریخ و  ثقافت ٗ زبان و کلچر  اور تاریخی ہیروز و شخصیات کے  کارناماموں کی داستانیں  منتقل کرتی ہے تو اس عمل کو تعلیم کہتے ہیں۔“
مندرجہ بالا تعریف کو ذہن میں رکھیں تو تعلیم دینے کا یہ عمل والدین سے بہتر کوٸی دوسرا شاید ہی سرانجام دے سکے۔ ہمارے ہاں بچے کو بہت چھوٹی عمر سے ہی سکول میں داخل کروادینے کا رحجان غالب ہے ۔ نہایت چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو منہ اندھیرے سکول وین میں یا بھاری بستے تھما کر سکول روانہ کردینا کوٸی دانشمندی کی بات نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ بسااوقات بچوں کا بچپن اور معصومیت سکول کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔
 میرے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد متوازن اور بااعتماد نوجوان نسل کی تعمیر ہے۔ ایسے نوجوان جو بدلتے رحجانات اوروقت کے ساتھ خود کو ڈھالنے کا ہنر جانتے ہوں ۔ یہ کام  ایسے والدین اور اساتذہ کر سکتے ہیں جو تجرباتی اور کتابی علم کو عملی زندگی سے ہم آہنگ کرکے آنے والی نسل کے دل و دماغ میں ڈال سکیں۔ وہ علم جو استعمال میں لایاجا سکتا ہو اسے علمِ نافع کہلاتا ہے۔ 

اوپر موجود دو تعریفوں کو دیکھا جاۓ تو اکثر سکولز اس بنیادی مقصد کے حصول میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پراٸیویٹ اسکولنگ نے آج نمبروں کے حصول کو تعلیم کا بنیادی اور واحد معیار بنا کر تربیت ٗ اچھی عادات ٗ رویوں ٗ برتاٶ اور عملی زندگی کے لیے درکار ضروری اسکلز کے حصول کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔ 
نمبروں کی دوڑ جہاں ایک طرف بچوں کو شدید تناٶ اور اضطراب سے دوچار کرتی ہے وہیں بچوں میں عملی زندگی کے مساٸل سے نمٹنے کی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہوپاتی ۔
 اس کے نتاٸج یہ ہیں کہ گولڈ میڈل لینے والے طلبہ کا سابقہ جب عملی زندگی سے پڑتا ہے تو وہ مناسب تربیت اور مہارتیں نہ ہونے کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں ۔ 
یادرہے میں بچوں کو اسکول بھیجنے کا مخالف نہیں ہوں۔ اس کی وجہ جہاں آج کل والدین کی شدید مصروفیات ہیں وہی اکثر والدین کے پاس ہوم اسکولنگ کے لیے درکار ضروری اسکلز کا نہ ہونا بھی ہے۔ تاہم میرے خیال میں والدین کی موجودہ نسل کو خود کو اس حد تک تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ بنانا چاہیے جس کی مدد سے وہ ابتداٸی سالوں میں اپنے بچے کو خود تربیت کے ساتھ تعلیم بھی دے سکیں ۔ اگر سات سال کی عمر تک والدین بچوں کو گھروں میں پڑھاٸیں ٗ ان میں اچھی عادات پروان چڑھاٸیں ٗ بنیادی اخلاقیات و اقدار سے متعارف کرواٸیں اور زندگی کے لیے درکار ضروری اسکلز سے آراستہ کریں تو بچوں کا مستقبل نہایت روشن و شاندار ہوسکتا ہے۔ 
یہ کام مگر محنت ٗ نظم و ضبط اور گہری توجہ و لگن کا متقاضی ہے اور صرف وہی والدین یہ کام کرسکتے ہیں جن کی اولین ترجیح اپنے بچوں کی پرورش و تربیت ہو تی ہے۔
ثاقب محمود عباسی

Comments

Post a Comment