جذباتی ذہانت بڑھانے کے طریقے (Ways to increase emotional intelligence)

جذباتی ذہانت بڑھانے کے طریقے



آپ نے اپنے بچوں کو پالنے کے لیے کیاکیا سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ نے انہیں ایک مکمل اور ذمہ دار ہونے انسان بننے  کے لیے کیا تربیت دی ہے۔ 
      
جذباتی ذہانت ابتداٸی سالوں میں ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتی ہے جب بچہ اپنے والدین اور اساتذہ کی گفتگو اور حرکات و سکنات کی پہچان کرنے کے قابل ہو جاتا ہے (ڈینیل گول مین)    
پچھلے صفحات میں ہم تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ جذباتی ذہانت کچھ لوگوں میں کم اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ زیادہ جذباتی ذہانت کے حامل لوگوں کے بچپن کا ماحول ایسا ہوتا ہے جو انہیں بہتر بناتا ہے ۔ 

بچوں میں سماجی ذہانت پروان چڑھاٸی جا سکتی ہے۔ اور سماجی ذہانت کی یہ صلاحیت پروان چڑھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ سکولز کو بھی اب اس صلاحیت پہ IQ ہی کی طرح توجہ دینی چاھیے۔ 

کچھ بچے فطری طور پرجذباتی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ مختلف صورتحال میں آسانی سے  بہتر ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ کچھ بچوں میں فطری طور پہ سماجی ذہانت کا پہلو کمزور ہو سکتا ہے۔ ایسے بچوں کی مدد کرکے ان کو بہتر سماجی ذہانت کا حامل بنایا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے مختلف صورتوں سے گزرنا اس کی سماجی ذہانت پہ اثرا نداز ہوتا ہے۔ 

دنیا کا ہر تعلیمی نظام شروع سے ہی IQ کو بڑھانے اور تیز کرنے پہ زور دیتا ہے اور بچے کی ذہنی و دماغی  ٗ سیکھنے ٗ یاد کرنے اور تجزیے کی صلاحیت بڑھانے  پہ زور دیتا ہے۔ لیکن جب سے سماجی ذہانت کی تحریک نے زور پکڑا توکچھ اسکولوں نے بچوں کو ان کے احساسات و جذبات سے نمٹنے اور ان کا بہتر اظہار کرنے کے قابل  اور اپنے اردگرد لوگوں کے جذبات و احساسات کو سجھنے اور اس کے مطابق برتاٶ کرلینا بھی سکھانا شروع کردیا۔ 

لیکن ابھی یہ آغاز  ہے اور بہت سا کام ہونا باقی ہے اس لیے والدین کو چاھیے کہ وہ خود اپنے بچوں میں جذباتی اور سماجی ذہانت کو بڑھانے کی فکر کریں ۔ 

ذیل میں ہم EQ میں اضافے کے چند طریقوں پہ بات کریں گے۔ 

١۔ بچوں کو جذبات کی پہچان کرواٸیے ۔
چار سال کی عمر سے ہی بچے کو جذبات کی کچھ نا کچھ پہچان ہونے لگتی ہے اور مناسب تربیت سے دس سال کی عمرتک وہ جذبات پہ قابو پانے کے قابل بھی ہو جاتاہے۔ بچوں کو  کم سنی سے ہی جذبات کی پہچان کرواٸیں ۔۔ انہیں خوشی ٗ غمی ٗ دکھ تکلیف ٗ اطمینان خوف وغیرہ جیسے جذبات سے متعارف کرواٸیں ۔ 
بچوں کو زندگی کی کچھ کچھ سچاٸیاں بتاتے جاٸیں جیسے کسی پیارے کے مرنے پہ بچے سے چھپانے کے بجاۓ اسے حقیقت بتاٸی جاۓ ۔ 
اسی طرح دیگر مواقعوں پہ جب وہ خوش ہو ٗ اداس ہو ٗ پریشان ہو ٗ مطمٸن ہو اسے ان جذبات سے شعوری واقفیت دلاٸیں۔ 
جب بچوں کو جذبات کی پہچان ہو جاۓ تو انہیں جذبات کے اظہار کا طریقہ بھی بتاٸیں ۔ بتانے سے زیادہ مگر آپ کے کسی جذبے کے عملی اظہار سے بچے سیکھتے ہیں۔ جیسے ان کے گرد خوشی غمی ٗ دکھ پریشانی وغیرہ میں ردعمل دیا جاۓ گا بچے ویسا ردعمل دینا سیکھتے جاٸیں گے۔  بچوں کو ذہانت سے مختلف جذبات کا اظہار سمجھاٸیں ۔انہیں معلوم ہو جانا چاھیے کہ اچھا یا برا محسوس کیسے کیا جاتا ہے ۔ بچوں کو اچھے جذبات کی بھی پہچان کرواٸیں ۔ اسی طرح ان کو مختلف جذباتی حالتوں کی ایکٹنگ کرنے کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ 
٢۔بچے سے اپنے جذبات کے بارے میں بات کیجیے۔ 
بہترین سماجی ذہانت دکھا کر سکھاٸی جا سکتی ہے۔ اپنے بچوں کو بتاٸیں کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں  ۔ ہم زیادہ تر بڑے اور اہم جذبات کی ہی بات کرتے ہیں اور اس دوران دیگر طاری کیفیات کو بھول جاتے ہیں ۔
بچوں کو بتاٸں کہ غصے ٗ افسردگی ٗ اور دکھ سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے ۔ غصے اور دباٶ سے نمٹنے کے طریقے پہ ہم نے پورا باب لکھا ہے۔ 

اسی طرح ہمارے جذبات بچوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ بچوں کے جذبات ہمارے جذبات پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسا کہ 
  کبھی بھی اپنے سخت اور غصیلےجذبات کے لیے بچوں کو مورد الزام نہ ٹھہراٸیں ۔ آپ جذبات اور ردعمل کے لیے آپ خود ذمہ دار ہیں ۔ 
٣۔ موڈ اور احساسات کے بارے میں بتاٸیں 
بچے کو بتاٸیں کے گھر کا ماحول کس طرح اس کے موڈ اور احساسات پہ اثرانداز ہوتا ہے ۔ 

مثال کے طور پہ جب گھر میں کافی لوگ موجود ہوں تب کیا ہوتا ہے ؟ اور جب گھر خالی ہو تو کس طرح کے جذبات طاری ہوتے ہیں ۔ اکیلے رہ کے کیسا محسوس ہوتا ہے اور ہجوم میں کیسا۔ ؟ غصے میں کیا فیلنگز ہوتی ہیں اور خوشی میں کس طرح کی ۔ 
مختلف مقامات پر موڈ اور احساسات معلوم کریں ۔
جیسے کسی شاپنگ مال کا ہجوم مختلف موڈ طاری کرتا ہے جبکہ کھیل کےمیدان کا مختلف ۔۔۔ 
بارش میں احساسات اور ہوتے ہیں دھوپ میں اور ۔۔ اسی طرح سردی اور گرمی ٗ چاندنی اور اندھیرا وغیرہ 
کھیلتے ہوۓ اور کھانا کھاتے ہوۓ ٗ رات سوتے ہوۓ اور صبح اٹھتے ہوۓ ۔ ہوم ورک کرتے ہوۓ اور اپنا پسندیدہ ٹی وی شو دیکھتے ہوۓ ۔۔ الغرض تمام طرح کے موڈ و احساسات سے بچے کے آگاہی دیں ۔ جب بچہ اپنے جذبات کو پہچاننے کے قابل ہو جاۓ گا تو اس کے بعد وہ انہیں manage کرنا بھی سیکھ لے گا۔ 
۔4 بچے کا ذخیرہ الفاظ بھی بڑھاہیے
اس پہ ہم گفتگو کے فن کے باب میں بات کرچکے ہیں ۔ بچے کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ سکھاٸیے ۔ اس طرح بچے کو اظہار کرنے میں آسانی ہو گی۔
۔5 جذبات  سیکھنے اور رابطے کا ذریعہ ہیں۔
جذبات سے ہی دوسرا ہم سے واقف ہوتا ہے اور ہم دوسروں سے ۔ ہم جذبات سے عاری نہیں رہ سکتے۔ اکثر ہم پہ کوٸی موڈیا احساس طاری ہوتا ہے ۔ہمیں اس سے نمٹنا آنا چاھیے۔ بچے کو اس کی تربیت دیں ۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا بھی سکھاٸیں ۔ دوسروں کی مصیبت اور پریشانی میں دلی ہمدردی محسوس کریں اور دوسرے کو انتہاٸی غور سے سنیں ۔ اس کے جذبات کو محسوس کرنا سیکھیں ۔ اسی طرح دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا ٗ اس کی حوصلہ افزاٸی اور سچی تعریف کرنا بھی سکھاٸیں۔ 

۔6 دوسرے کی جگہ رکھ کر دیکھنا اورسوچنا سکھاٸیں 
یہ ایک نہایت اہم تکنیک ہے جس سے جذباتی ذہانت پروان چڑھاٸی جاتی ہے۔اکثر اوقات جب ہم دوسروں کے برے عمل ٗ رویے یا برتاٶ سے پریشان ہوتے ہیں ایسے میں مسلے کو دوسرے کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہمیں بہتر انداز میں اس سے معاملہ طے کرنےمیں مدد دیتاہے۔ مثال کے طور پر اگر کوٸی  چھوٹا بچہ آپ کے بچے کو کھلونا توڑ دے تو  آپ اسے سمجھاٸیں کہ جب تم اس کی عمر کے تھے تب تم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اسی طرح بچے کو مختلف اوقات میں دوسروں کے نقطہ نظر سے چیزوں اور واقعات کو دیکھنے کی عادت ڈالیں۔
۔7 مساٸل حل کرنا سکھاٸیں۔

جذباتی ذہانت سکھانے کا ایک پہلو مسلے کے حل نکالنا ہے یعنی  پرابلم سالونگ ۔۔ مسلہ موجود ہوگا ۔ اس کا حل نکالنا ہمارا کام ہے ۔ اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی ۔مساٸل پریشان ہونے یا کڑھنے سے نہیں بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر حل کرنے سے ختم ہوتے ہیں ۔
مسلے کا تجزیہ کرنا اور اس کی وجہ معلوم کرنا بچے کو سکھاٸیں۔ہر مسلے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں ۔ ہم ہمیشہ اسی پہلو سے دیکھتے ہیں جس طرف ہماری اپنی طبعیت کارحجان ہوتا ہے ۔ اس طرح ہم اکثر مسلے کی اصل وجہ جاننے سے قاصر ہو جاتے ہیں ۔ مسلے کے دوسرے پہلوٶں کو دیکھ لینا نا صرف ہمیں مسلے کےحل کی طرف لے جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ہم بہت سی سنگین غلطیوں سے بھی بچ جاتے ہیں ۔
بچوں کو شروع سے ہی مسلے دیگر پہلو بھی دکھاٸیں ۔مساٸل کے ممکنہ حل کو ڈسکس کیجیے اور پرابلم سالونگ تکنیک استعمال کیجیے جس پہ ہم نے تفصیلا لکھا ہے۔ 

۔8 اپنے جذبات پر قابو پانے کی تربیت دیجیے۔ 

دوسرا اہم کام اپنے جذبات پر قابو پانا اور انہیں کنٹرول کرنا ہے۔ غصے  ٗ دکھ میں اور پریشانی میں ہم کیسے خود پہ قابو رکھیں گے۔ مسلے کے وقت اس کے حل سے بھی زیادہ اہم ہمارا رویہ ہوتا ہے کہ کیسے ہم کسی مسلے کو دیکھتے ہیں اور اسے حل کرنے کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچتے ہیں یا غصے ٗ طیش ٗ پریشانی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ہماری وہ کیفیت جو ہمارے ذاتی کنٹرول کی ڈور ہمارے ہاتھ میں تھماۓ انتہاٸی اہم ہے ۔ اس موضوع پر بھی ہم نے الگ ابواب میں زیادہ تفصیل سے بات کی۔

۔9 اپنے رویوں اور جذبات کی ذمہ داری قبول کرواٸیں
بچے کو اس قابل کریں جس سے وہ اپنے رویے ٗ برتاٶ ٗ احساسات و جذبات اور اپنے افعال کی سو فیصد ذمہ داری خود قبول کرے ۔ اپنی زندگی کے کنٹرول کا ریموٹ خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور ایک ذمہ 
دار شخصیت بن کر ابھرے۔

ہم بنیادی طور پر ایک IQ زدہ قوم ہیں ۔ ہمارے سکول ٗ کالج اور یونیورسٹیاں بچوں کو  نمبروں کی دوڑ میں لگا دیتی ہیں اور  ہرجگہ اچھی پوزیشن اور زیادہ نمبروں کی مسابقت چل رہی ہے۔ تاہم یہی طلبہ جو بعض اوقات گولڈ میڈل لے کر پاس ہوتے ہیں ٗ عملی زندگی میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ اکثر تو ڈھنگ سے انٹرویو بھی نہیں دے پاتے۔ یہ جذباتی ذہانت کی کمی ہوتی یے جس کی تربیت اور نشوونما پہ کام نہیں کیا جاتا۔ عملی زندگی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے نمٹنے اور اپنے جذبات کا مناسب طریقے سےاظہار نہیں کرنے کی صلاحیت سے اپنے بچوں کو ضرور بہرہ ور کریں  اسی طرح دوسروں کے جذبات کو بھی سمجھنے سے اور مناسب برتاٶ کے طریقے بھی بتاٸیں۔مناسب تربیت اور راہنماٸی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں  ہمارے معاشرے میں موجود اخلاقی ٗ نفسیاتی اور معاشی و سکیورٹی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کا ڈھنگ نہ آنے کی وجہ سے بہت سی کامیابیوں کے باوجود نفسایاتی خلفشار ٗ ڈپریشن ٗ تناٶ ٗحتیٰ کہ نروس بریک ڈاٶن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں ۔جذباتی ذہانت نہ ہونے اور اپنے جذبات کو مینج نہ کرسکنے کی وجہ سےکچھ طلبا منشیات کا شکار ہوجاتے ہیں اور چند خودکشی تک کر لیتے ہیں۔  بے یقینی سے لبریز اس معاشرے میں جذباتی ذہانت کی 
اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اپنے بچوں کو اس لازمی صلاحیت سے ضرور بہرمند کریں۔


(یہ پوسٹ پیرنٹنگ پہ ہماری کتاب کے ایک باب کا حصہ ہے جو کچھ اضافے و ترمیم کے بعد شامل کی جاۓ گی ۔۔ طوالت کے لیے معذرت)
ثاقب محمود عباسی

Comments

Post a Comment