سلطان فتح علی ٹیپو

سلطان فتح علی ٹیپو



"شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے “ سلطان فتح علی ٹیپو"

ٹیپو سلطان کا نام برصغیر پاک و ہند میں معروف و معلوم ہے ۔ اٹھارویں صدی کی آخری دہاہیوں میں سلطنت خداداد کے نام سے میسور میں ایک ریاست کی بنا ڈالی اور اس کو اتنے جدید انداز میں چلایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 
ٹیپو سلطان دین اسلام پر کامل یقین رکھنے والے اور اپنے وطن پر جان دینے والے تھے۔ اسی عرصے میں انہیں مسلسل انگریز غاصبوں سے بر سر پیکار رہنا پڑتا تھا تاہم اس کے باوجود امور سلطنت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے سلطان نے اتنا بہتر ٗ جامع اور مستحکم نظام قاٸم کیا تھا کہ آج بھی مہذب دنیا کا نصب العین بنا ہوا ہے ۔ تعریف اگر دشمن کے منہ سے نکلے تو سچاٸی پر مبنی ہوگی ۔ ایک انگریز مورخ یوں رقم طراز ہے : 
” جب آپ اجنبی ملک سے گزر رہے ہوں اور دیکھیں کہ زراعت ترقی پر ہے ٗ شہر آباد ہورہے ہیں ٗ صنعت و حرفت کو ترقی ہو رہی ہے ٗ تجارت عروج پر ہے ٗ اور ہر گام پر ترقی یہ ظاہر کررہی ہے کہ رعایا خوشحال ہے تو سمجھ لو کہ حکومت عوام کی مرضی کی ہے ٗ یہ ہے ٹیپو کی حکومت کا نقشہ “۔ 
یہ صورت حال تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب حکمران اپنے لیے نہیں بلکہ قوم اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے حکمرانی کرے ۔ ٹیپو سلطان ایک جمہوریت پسند حکمران تھا اور خود کو ٹیپو ایک شہری ہے کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔
ٹیپو کے بڑے کارناموں میں آبپاشی کا جدید نظام ٗ یونیورسٹی کا قیام ٗ سینکڑوں کتابوں کی اشاعت ٗ راکٹ سازی ٗ جہاز سازی ٗ کے کارخانے اور صنعتوں کا قیام ہے ۔ 
انہوں نے اپنی ساری زندگی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں گزار دی ۔ اگر میر صادق غداری نہ کرتا تو شاید آج برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی ۔ اس بطل جلیل کی شہادت اپنوں کی غداری کی وجہ سے 1799 میں انگریزوں کے ہاتھوں ہوٸی لیکن تاریخ میں اس کا ذکر ہمیشہ باقی رہیگا۔ 
ٹیپو کی پیداٸش فاطمہ بیگم اور حیدر علی کے ہاں 10 نومبر 1750 کو بینگلور سے 33 کلومیٹر دور دیوان ملی نامہ قصبہ میں ہوٸی ۔ بچہ کا نام ان کے دادا کے نام پر فتح اور ایک نیک دل بزرگ مستان علی ٹیپو کے نام پر ٹیپو رکھا گیا۔
ٹیپو کی پیداٸش سے پہلے ان کے والد حیدر علی میسور کے راجہ کرشنا راج کی فوج کے معمولی ملازم تھے لیکن ٹیپو کی ولادت کے ساتھ ہی ان کے اقبال کا ستارہ چمکا اور دو سال کے اندر  ڈنڈیگل کے گورنر مقرر ہوۓ اور پھر فوج کے سپہ سالار بناۓ گٸے۔ اگلے دس سال کے اندر وہ پوری ریاست میسور کے والی بن گٸے۔ 
جب ٹیپو کی عمر پانچ سال ہوٸی تو حیدر علی نے جو خود ناخواندہ تھے ٗ اپنے زمانے کے بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل کیں اور سب سے پہلے ٹیپو کی دینی تربیت کا بندوبست کیا ۔ قرآن شریف ٗ اور عربی و فارسی دانی کے لیے معلم مقرر ہوۓ ۔ اس کے بعد حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دی گٸی مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی و فرانسیسی زبان سیکھنے کا اہتمام بھی ہوا ۔ 
حیدر علی اپنے بیٹے کی تربیت و تعلیم کی براہ راست نگرانی کرتے اور ٹیپو سے براہ راستا سوالات بھی کرتے ۔ غرض ہر طرح کے علوم وفنون کے لیے بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی گٸیں۔ اس زمانہ کے حالات و ضروریات کے مطابق جنگی فنون شہسواری ٗ تیراندازی اور سپہ گری وغیرہ کی تربیت بھی دلاٸی گٸی۔ ٹیپو چونکہ فطری طور پر ذہین تھا اس لیے جلد ہی ان علوم و فنون میں ماہرہوگیا۔  ٹیپو کو گھڑسواری پسند تھی ۔ پالکی میں بیٹھنے کو وہ مردانہ شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ 
ٹیپو کے بچپن کے حالات میں ملتا ہے کہ 6 /7 سال کی عمر میں ایک دن جب وہ کھیل رہے تھے تو ایک بزرگ کا پاس سے گزر ہوا جس نے ٹیپو کو دیکھ کر پیشین گوٸی کی کہ یہ بچہ ایک دن اس ریاست کا حکمران بنے گا ۔ اس وقت ٹیپو کے والد حیدر علی میسور کی فوج میں معمولی ملازم تھے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جب تم حکمران بنو تو یہاں مسجد تعمیر کرنا جو 1787 میں ٹیپو نے تعمیر کراٸی۔ 
حیدر علی نے بچپن ہی سے ٹیپو کو تمام جنگی مہموں میں اپنے ساتھ رکھا ۔ نتیجتاً 16/17 سال کی عمر تک ٹیپو ایک قابل سپاہی اور لاٸق افسر بن چکا تھا ۔
حیدر علی کو اپنے ناخواندہ ہونے کا بہت قلق رہتا تھا اس لیے انہوں نے ٹیپو کی تعلیم و تربیت پہ کوٸی مصلحت نہ کی اور اسے اپنی جانشینی کے لیے تیار کیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ عنان سلطنت سنبھالنے کے لیے صرف بہادری ٗ ذہانت اور حسن ِ انتظام ہی کافی نہیں بلکہ ان سب صلاحیتوں کے ساتھ حکمران کو زیور ِ تعلیم سے بھی آراستہ ہونا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے ٹیپو کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون کو بھی ماہرین وقت سے ٹیپو میں منتقل کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی و دینی تربیت سے بھی غفلت نہ برتی ۔ 
یہ حیدر علی کی اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں حددرجہ دلچسپی ہی تھی جس کی وجہ سے ٹیپو سلطان نے جب 1782 میں میسور کی حکومت سنبھالی تو وہ کارہاۓ نمایاں سر انجام دیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ثاقب محمود عباسی

Comments

Post a Comment