بچوں میں گروتھ ماٸنڈ سیٹ ڈویلپ کیجیے
( Develop a growth mindset in children)
بچہ جب حرکت کرنے اور ہار پاٶں مارنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس وقت وہ فطرتاً گروتھ ماٸنڈ سیٹ کا حامل ہوتا ہے ۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر گزرتا ہے ۔ کوٸی ڈر خوف یا تنقید اسے روک نہیں پاتی ۔ وہ تیزی سے سیکھنے کے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے ۔
آپ غور کریں بچہ جب چلنا سیکھتا ہے تو کتنی دشواریوں کا سامنا کرتا ہے ؟ گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتا ہے ۔ پھر کسی چیز کا سہارہ لے کر کھڑا ہونا شروع کرتا اور پھر چلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اس عمل میں وہ کتنی بار گرتا ہے اور پھر سنبھلتا ہے ۔ چوٹیں کھاتا ہے مگر پروا نہیں کرتا ۔ ایک وقت پھر ایسا آتا ہے جب وہ نہ صر ف اعتماد سے چل سکتا بلکہ تیزی سے بھاگنے بھی لگتا ہے۔
جب وہ بولنے کی کوشش کرتا ہے تب کوٸی لفظ بھی ایسا نہیں ہوتا جو مبہم یا بے معنی نا ہو ۔مگر بچہ بولتا رہتا ہے کوشش کرتا رہتا ہے۔ الفاظ سیکھتا اور بولتا ہے ۔ اکثر الفاظ مبہم اور غلط ہوتے ہیں مگر وہ رکتا نہیں سیکھنے کا عمل جاری و ساری رکھتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ فرفر بولنے لگ جاتا ہے۔
ایسے اور بہت سارے کام بچہ سیکھ رہا ہوتا ہے اور اس عمل میں سینکڑوں غلطیاں کرتا ہے مگر اپنی کوشش سے باز نہیں آتا ۔ یہی دراصل گروتھ ماٸنڈ سیٹ ہے ۔تاہم جیسے ہی بچہ تجزیہ کرنے اور سوچنے سمجھنے لگ جاتا ہے اسے ناکامی اور فیل ہونے کا ادراک ہوتا ہے اس کا ماٸنڈسیٹ بدلنے لگ جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی بچے میں تجزیے کی صلاحیت زمانہ طفولیت میں پیدا ہوجاۓ تو وہ بولنا اور چلنا سیکھ ہی نہیں پاتا۔
ان مثالوں سے آپ بخوبی سمجھ گٸے ہوں گے کہ بچہ شروع میں تو گروتھ ماٸنڈ سیٹ کا حامل ہوتا ہے لیکن جب تجزیہ کرنے کے قابل ہوتا ہے تو اس وقت اگر اس کی مناسب راہنماٸی نہ کی جاۓ تو عین ممکن ہے کہ وہ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ اپنا لے ۔ اس موقع پر والدین کا کردار نہایت اہم ہوتاہے ۔
ماٸنڈ سیٹ ہے کیا ؟ ماٸنڈ سیٹ دراصل ہمارے چند نظریات و اعتقادات کے مجموعے کا نام ہے۔ ہم کسی چیز ٗ کام ٗرویے یا واقعے کو کیا معانی پہناتے ہیں ۔ ان سب سے مل کر ہمارا ماٸنڈ سیٹ بنتا ہے ۔
بچے جب طفولیت سے بچپن میں اور پھر بچپن سے لڑکپن میں قدم رک رہے ہوتے اس وقت ان کے جو بھی اعتقادات بناٸیں جاٸیں گی ان کی بنیاد پر بچہ اپنا ماٸنڈسیٹ ڈویلپ کرے گا۔
سیکھنے ٗ پڑھنے ٗ کوشش کرنے ٗ جیتنے اور ہارنے ٗ گرنے اور فیل ہونے کا وہ کیا مفہوم لیتا ہے اور ظاہر ہے یہ مفہوم وہ اپنے ماحول خصوصا والدین ٗ اساتذہ اور پھر دوستوں سے اخذ کرے گا۔
اسی ماحول میں ذہانت اور قابلیت کا مفہوم کیا ہے ؟ ٗ پرفیکٹ اور سپرمین ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ بغیر کوشش کے محض اپنی فطری صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابی کو کیا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ سب عناصر مل کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔
١۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اپنا ماٸنڈ سیٹ کو دیکھیے ۔ اگر آپ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ کے حامل ہیں تو گروتھ ماٸنڈ سیٹ اپناٸیے ۔ گذشتہ صفحات میں ہم تفصیلی ذکر چکے ہیں ۔
٢۔ شروع دن ہی سے بچے کی کوششوں کی تعریف کیجیے۔ جب بھی وہ کوٸی کام کرنے میں کامیاب ہو تو اسے شاباش دیں اور تعریف کریں لیکن اس تعریف کے الفاظ کا چناٶ سوچ سمجھ کر کیجیے۔ ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جس سے بچہ کوشش اور جدوجہد کے بجاۓ ذہانت کو یا پیداٸشی ٹیلنٹ کو کامیابی کی وجہ سمجھ لے۔ مثلا اسے یہ مت کہیں کہ تم بہت ذہین ہو ٗ تم بہت سمارٹ ہو بلکہ یہ کہیں کہ شاباش تم بہت کوشش پسند ہو ٗ تم بہت محنتی ہو اور تم ہمیشہ آخر دم تک کوشش کرتے رہتے ہو۔ اگر تم کوشش نہ کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو پاتے۔
ایک بچہ جب گھر میں ذہین ترین مانا جاتا ہو وہ جب کلاس میں جاتا اور اپنے سے زیادہ ذہین بچوں سے ملتا ہے تو تب بھی شکست خوردگی کے جذبات اپنا کر فکسڈ ماٸنڈ سیٹ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ چھوٹے سکول سے بڑے سکول جاۓ گا جہاں اس سے زیادہ IQ اور ذہانت والے بچے موجود ہوں گے تب بھی اس کے اپنے بارے میں موجود اعتقادات کو زد پہنچے گی اور وہ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ کا حامل بن جاۓ گا۔
٣۔ اسی طرح اسے بتاٸیے کہ ذہانت سے زیادہ محنت اور کوشش اہم ہے ۔ ذہانت فیل ہو سکتی ہے مگر کوشش اور محنت فیل نہیں ہوتی۔
٤۔ اسے خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے پر توجہ دلاٸیں ۔ خوبیوں کو اور بہتر کیا جانا اور خامیوں کو کم کرنا اور ختم کرنا ہر انسان کے اپنے بس میں ہے ۔
٥۔ اسے اس کی خامیوں پہ متوجہ کیجیے اور انہیں بہتر کرنے کے لیے ابھاریں ۔
٦۔ اسے بتاٸیں کہ انسان کو کام تعریف و توصیف سے ماورا ہو کر کرنا چاہیے ۔ مثلا کھیل میں اچھا کھیلنا یا ٹیسٹ میں نمبر لینے کی سب سے زیادہ خوشی بچے کو خود ہونی چاھیے کہ اس نے اپنی محنت سے یہ نتائج حاصل کیے نا کہ اسے دوسروں کی تعریف یا حوصلہ افزاٸی کے حصول کے لیے کامیاب ہونے کی عادت پڑ جاۓ اور جب کبھی ایسا نہ ہو تو بچہ محنت اور کوشش ہی ترک کر دے ۔
گو ایسا کرنا قطعاً آسان نہ ہو گا کیونکہ ہماری فطرت اور کلچر دونوں میں تعریف و توصیف کے لیے بہت زیادہ طلب پاٸی جاتی ہے لیکن پھر بھی آپ کی کوششوں سے بچہ کچھ توازن ضرور حاصل کرلے گا۔
٧۔ بچے کو شروع سے ہی ہر مسلے اور ہر مشکل کو ایک چیلنج سمجھ کر دیکھنے کی عادت ڈالیے ۔ اسے بتاٸیے کہ مسلہ مستقل نہیں ہوتا۔
ہر مسلے کا حل موجود ہوتاہے۔
مسلے کے ساتھ ایک موقع بھی آتا ہے
ہمیں اس مسلے کا حل نکالنا ہوتا ہے
پریشان ہونے ٗ رونے دھونے سے مسلے کاحل نہیں نکلتا بلکہ ٹھنڈے دماغ سے مسلہ کی وجہ معلوم کر کے اس کو دور کیا جاتا ہے۔
اسے بتاٸیے کہ ہر بار مسلہ حل کرکے بچہ کچھ نیا سیکھے گا جو اس کے تجربے اور اعتماد میں اضافہ کرے گا۔
٨۔ بچے کو سیکھنے کے مختلف طریقوں سے متعارف کرواٸیے تاکہ وہ مختلف طریقے اختیار کرنے پہ قادر ہو سکے۔ اس طرح اس میں اعتماد اور تخلیقی صلاحیت بھی پیدا ہو گی۔
٩۔ ناکامی کے لفظ کو سبق ٗ لیسن یا رزلٹ سے بدل دیجیے۔ بچے کا اعتقاد بناٸیے کہ ہر عمل کا اپنا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اگر نتیجہ ہماری توقع کے برعکس نہیں ہے تو لازما ہمارے کام یا عمل میں کمی رہی ہو گی ۔ ہمیں اس کمی کا کھوج لگا کر اسے دور کرنا ہے۔
١٠۔ کسی بھی کام میں بچہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپاۓ تو اسے کبھی مت کہیے کہ وہ ناکام رہا بلکہ اسے بتاٸیے اس نے اس عمل سے کچھ نیا سیکھا ہے اور اس لرننگ کی طرف بچے کو توجہ دلاٸیے۔
١١۔ گروتھ ماٸنڈ سیٹ کے حامل بچے اپنے مقصد اور طے شدہ گولز کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کو کچھ اہداف دیجیے اور ان کے حصول کے لیے کوشش پہ لگا دیجیے۔
١٢۔ بچوں سے کبھی بھی جلدی نتائج کی توقع نہ کریں بلکہ انہیں صبر کے مفہوم سے آگاہ کجیے۔ ہر کام ایک مناسب وقت کا تقاضا کرتا ہے۔
١٣۔ بچوں کے کاموں کو سراٸیں ۔ ان میں موجود خوبیوں کے بجاۓ ان کے اقدامات کی تعریف کریں۔ ان کو بتاٸیں کہ خوبیاں بھی کوشش سے ہی پروان چڑھتی اور برقرار رہتی ہیں ۔
١٤۔ بچے کو ایسا مأحول دیجیے جس میں ہر وقت اس کے سیکھنے کے لیے کچھ نیا موجود ہو ۔ایسا ماحول سکول کے علاوہ گھر میں بھی ہونا چاھیے۔
١٥۔ نتاٸج سے زیادہ کوشش کو اہمیت دیں اس لیے ناکامی کی صورت میں بچے کو تنقید کا نشانہ نہ بناٸیں ۔ غلطی کی صورت میں بتاٸیں کہ کیا غلطی ہوٸی اور اس کا سبب بچے کی توجہ ٗ رویہ ٗ برتاٶ ٗ ماٸنڈ سیٹ یا کوشش میں کمی ٗ جو بھی ہو اس طرف متوجہ کیجیے۔ غلطی سے سیکھنے کا رحجان پروان چڑھاٸیں ۔
١٦۔ بچے کو دوسروں کی ستاٸش یا پذیراٸی کا عادی نہ بناٸیں ۔ اسے کبھی مت کہیں کہ فلاں کام کرنے سے تمارے ابو یا دادا یا ٹیچر خوش ہونگے ۔ ایسی تحریک وقتی ہوتی ہے اور جب بچے کو بعد میں معلوم ہو کہ دوسرے لوگوں کو اس کی کامیابی سے زیادہ خوشی نہیں ہوٸی تو وہ نہ صرف ہرٹ ہوتا ہے بلکہ آٸندہ کوشش کرنا بھی چھوڑ سکتا ہے۔
١٧۔ اگر بچے میں کو ٸی ظاہری نقص یا کمی ہے تو اسے خود بھی تسلیم کیجیے اور بچے سے بھی تسلیم کراٸیے ۔ اسے بتاٸیے کہ اصل انسان اپنے ظاہر سے نہیں بلکہ اپنی سوچ فکر ٗ رویے اور برتاٶ ٗ اخلاق و اقدار اور کردار سے بنتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں انسان کی کوشش پہ منحصر ہیں ۔ بچے کو ظاہری شخصیت کو نمایاں کرنے کی زیادہ فکر ہونے لگے تو اسے اس فکر سے آزادی دلاٸیے۔ اسے بار بار بتاٸیں کہ محنت اور کوشش سے انسان اپنے آپ کو دنیا سے منوا سکتا ہے۔
١٩۔ناکامی اور شکست کا فرق واضح کیجیے ۔ کسی کام میں ایک دو بار ناکامی کا مطلب شکست نہیں ہوتا بلکہ جب ہم مایوس ہو کر کسی کام کو کرنا چھوڑ دیں تب ہمیں شکست ہوتی ہے۔
٢٠۔ بچے کو خطرات اور رسک لینے پر آمادہ کیجیے۔ بچے کو ایسے دوستوں کے گروپ اختیار کرنے کو کہیں جو کسی حد تک خطرپسند ہوں ٗ یعنی کچھ تخلیقی اور نیا کرتے ہوں۔البتہ بہت بڑے خطرے یا مصیبت کو سرمول لینے والے نہ ہوں۔
٢١۔ بچے کو ایک کے بعد ایک اہداف دیتے جاٸیے اور یہ عمل کبھی رکنے نہ پاۓ۔ بچوں کو بتاٸیں کہ زندگی جدوجہد کوشش اور تگ ودو کا نام ہے ۔ جو ٹھہرے زرا کچل گٸے کا مفہوم سمجھاٸیے۔
٢٢۔ کبھی بھی اپنے آپ اور اپنے کاموں سے مطمٸن ہوجانے والا رویہ نہ اختیار کرنے دیں بلکہ ہر روز خود میں اور اپنے کاموں میں بہتری لانے والا رویہ پروان چڑھاٸیں ۔ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آنے والا دن اس کے گزرے ہوۓ دن سے بہتر نہ ہو ۔ اس کو زندگی کا فسفہ بنا دیجیے۔
٢٣۔بچے میں اپنے کاموں اور اپنے رویے کی ذمہ داری قبول کرنے کا مزاج ڈویلپ کیجیے ۔ ذمہ داری قبول کرنے کے بجاۓ شکایت اور گلہ شکوہ کرنا آسان ہوتا ہے ۔ ذمہ داری قبول کرنا تعمیر ذات کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔
٢٤۔ بچوں کے شکایتی رویے کو بدلنے کی کوشش کریں ۔ انہیں بتاٸیں کہ ہم دنیا بدلنے سے زیادہ خود کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔ انہیں بتاٸیں کہ دوسروں کو بدلنے سے زیادہ ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود کو بدلنا دنیا بدلنے سے بھی زیادہ اہم اور چیلجنگ کام ہے ۔ جو خود کو بدلنے پہ قادر ہو دنیا بھی صرف وہی بدل سکتا ہے۔
٢٥۔ بچے کو بتاٸیے کہ ہمارے ساتھ اکثر جو ہوتا ہے ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اس کے بارے میں اپنے رویے اور ردعمل پہ پورا اختیار رکھتے ہیں ۔
٢٦۔بچوں کے اندر موجود اس مزاج کا تذکرہ دوسروں سے بھی کریں تاکہ بچہ اس سے حو صلہ پکڑے ۔
٢٧۔ بچے کو جرات مندی سکھاٸیے ۔ ثابت قدمی اور استقامت کے معانی سمجھاٸیے اور اس کے ساتھ اسے عظیم لوگوں کے واقعات سناٸیےکہ کیسے انہوں نے اپنی محنت اور کوشش سے دنیا کو بدلا۔ رسول ﷺ کی سیرت کے واقعات بتاٸیں کہ کیسے اللہ کے نبیﷺ ہو کر بھی آپ نے جدوجہد اور کوشش سے بھرہور زندگی گزاری ۔ انہیں شعب ابی طالب ٗ طاٸف و احد اور احزاب و تبوک کے واقعات سناٸیے۔
اسی طرح سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ فتح کرنے والا واقعہ سناٸیے۔ امیرتیمور کے بارے میں بتاٸیں کہ کس طرح ایک مکڑے سے اس نے ہمت نہ ہارنے کا سبق لیا اور پھر دنیا کا نامور فاتح بنا۔
ظہیرالدین بابر کی زندگی بھی ایسےہی کوشش اور جدوجہد پر مبنی ہے ۔ بچے کو اس کی داستان سے متعارف کرواٸیے۔
تھامس ایڈیسن کی بجلی کا بلب بنانے میں دس ہزار ناکامیوں والی کہانی سناٸیے۔ اسی طرح سچن ٹنڈولکر کا واقعہ سناٸیے کہ کیسے ایک لیجنڈ کرکٹر زندگی کے پندرہ سال مسلسل ہرروز بغیر کسی چھٹی کے نیٹ پریکٹس کرتا تھا۔
اسی طرح قیام پاکستان کی داستان سناٸیے ۔ یہ بھی برصغیر کے مسلمانوں کی مسلسل کوشش اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
٢٩۔ اس کتاب میں ہم نے جن عادات اور اسکلز کا ذکر کیا ہٕے کوشش کریں بچہ ہر وقت کم از کم ایک اسکل اور ایک عادت اپنانے کے لیے سرگرم رہے ۔ ایک عادت کو پختہ ہونے کے لیے دوماہ اور ایک اسکل ڈویلپ کرنے کے لیے بیس گھنٹے چاھیے ہوتے ہیں۔ ہم نے ان پہ تفصیل سے لکھا ہے۔ کوشش کریں بچہ ہر تین ماہ میں ایک اسکل اور ایک عادت ڈالنے کی کوشش کرے اس طرح وہ ہرسال چار اسکلز اور چارنٸی عادات کا حامل بنتا جاۓ گا ۔ یقین کرے یہ کام مشکل نہیں ہے اور بچوں کے لیے تو بالکل مشکل نہیں ہے کیونکہ اگر آپ نے انہیں مثبت اور تعمیری عادات اور اسکلز سے متعارف نہ کروایا تو منفی اور تخریبی چیزیں وہ خودسیکھ لیں گے۔
امید ہے کہ یہ طریقہ کار بچے کو گروتھ ماٸنڈ سیٹ کا حامل بنا دے گا جو اسے تعلیم ٗکھیل ٗ بزنس ٗ جاب ٗ اور تعلقات میں ساری زندگی کام آتا رہے گا۔
آپ غور کریں بچہ جب چلنا سیکھتا ہے تو کتنی دشواریوں کا سامنا کرتا ہے ؟ گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتا ہے ۔ پھر کسی چیز کا سہارہ لے کر کھڑا ہونا شروع کرتا اور پھر چلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اس عمل میں وہ کتنی بار گرتا ہے اور پھر سنبھلتا ہے ۔ چوٹیں کھاتا ہے مگر پروا نہیں کرتا ۔ ایک وقت پھر ایسا آتا ہے جب وہ نہ صر ف اعتماد سے چل سکتا بلکہ تیزی سے بھاگنے بھی لگتا ہے۔
جب وہ بولنے کی کوشش کرتا ہے تب کوٸی لفظ بھی ایسا نہیں ہوتا جو مبہم یا بے معنی نا ہو ۔مگر بچہ بولتا رہتا ہے کوشش کرتا رہتا ہے۔ الفاظ سیکھتا اور بولتا ہے ۔ اکثر الفاظ مبہم اور غلط ہوتے ہیں مگر وہ رکتا نہیں سیکھنے کا عمل جاری و ساری رکھتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ فرفر بولنے لگ جاتا ہے۔
ایسے اور بہت سارے کام بچہ سیکھ رہا ہوتا ہے اور اس عمل میں سینکڑوں غلطیاں کرتا ہے مگر اپنی کوشش سے باز نہیں آتا ۔ یہی دراصل گروتھ ماٸنڈ سیٹ ہے ۔تاہم جیسے ہی بچہ تجزیہ کرنے اور سوچنے سمجھنے لگ جاتا ہے اسے ناکامی اور فیل ہونے کا ادراک ہوتا ہے اس کا ماٸنڈسیٹ بدلنے لگ جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی بچے میں تجزیے کی صلاحیت زمانہ طفولیت میں پیدا ہوجاۓ تو وہ بولنا اور چلنا سیکھ ہی نہیں پاتا۔
ان مثالوں سے آپ بخوبی سمجھ گٸے ہوں گے کہ بچہ شروع میں تو گروتھ ماٸنڈ سیٹ کا حامل ہوتا ہے لیکن جب تجزیہ کرنے کے قابل ہوتا ہے تو اس وقت اگر اس کی مناسب راہنماٸی نہ کی جاۓ تو عین ممکن ہے کہ وہ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ اپنا لے ۔ اس موقع پر والدین کا کردار نہایت اہم ہوتاہے ۔
ماٸنڈ سیٹ ہے کیا ؟ ماٸنڈ سیٹ دراصل ہمارے چند نظریات و اعتقادات کے مجموعے کا نام ہے۔ ہم کسی چیز ٗ کام ٗرویے یا واقعے کو کیا معانی پہناتے ہیں ۔ ان سب سے مل کر ہمارا ماٸنڈ سیٹ بنتا ہے ۔
بچے جب طفولیت سے بچپن میں اور پھر بچپن سے لڑکپن میں قدم رک رہے ہوتے اس وقت ان کے جو بھی اعتقادات بناٸیں جاٸیں گی ان کی بنیاد پر بچہ اپنا ماٸنڈسیٹ ڈویلپ کرے گا۔
سیکھنے ٗ پڑھنے ٗ کوشش کرنے ٗ جیتنے اور ہارنے ٗ گرنے اور فیل ہونے کا وہ کیا مفہوم لیتا ہے اور ظاہر ہے یہ مفہوم وہ اپنے ماحول خصوصا والدین ٗ اساتذہ اور پھر دوستوں سے اخذ کرے گا۔
اسی ماحول میں ذہانت اور قابلیت کا مفہوم کیا ہے ؟ ٗ پرفیکٹ اور سپرمین ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ بغیر کوشش کے محض اپنی فطری صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابی کو کیا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ سب عناصر مل کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔
١۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اپنا ماٸنڈ سیٹ کو دیکھیے ۔ اگر آپ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ کے حامل ہیں تو گروتھ ماٸنڈ سیٹ اپناٸیے ۔ گذشتہ صفحات میں ہم تفصیلی ذکر چکے ہیں ۔
٢۔ شروع دن ہی سے بچے کی کوششوں کی تعریف کیجیے۔ جب بھی وہ کوٸی کام کرنے میں کامیاب ہو تو اسے شاباش دیں اور تعریف کریں لیکن اس تعریف کے الفاظ کا چناٶ سوچ سمجھ کر کیجیے۔ ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جس سے بچہ کوشش اور جدوجہد کے بجاۓ ذہانت کو یا پیداٸشی ٹیلنٹ کو کامیابی کی وجہ سمجھ لے۔ مثلا اسے یہ مت کہیں کہ تم بہت ذہین ہو ٗ تم بہت سمارٹ ہو بلکہ یہ کہیں کہ شاباش تم بہت کوشش پسند ہو ٗ تم بہت محنتی ہو اور تم ہمیشہ آخر دم تک کوشش کرتے رہتے ہو۔ اگر تم کوشش نہ کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو پاتے۔
ایک بچہ جب گھر میں ذہین ترین مانا جاتا ہو وہ جب کلاس میں جاتا اور اپنے سے زیادہ ذہین بچوں سے ملتا ہے تو تب بھی شکست خوردگی کے جذبات اپنا کر فکسڈ ماٸنڈ سیٹ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ چھوٹے سکول سے بڑے سکول جاۓ گا جہاں اس سے زیادہ IQ اور ذہانت والے بچے موجود ہوں گے تب بھی اس کے اپنے بارے میں موجود اعتقادات کو زد پہنچے گی اور وہ فکسڈ ماٸنڈ سیٹ کا حامل بن جاۓ گا۔
٣۔ اسی طرح اسے بتاٸیے کہ ذہانت سے زیادہ محنت اور کوشش اہم ہے ۔ ذہانت فیل ہو سکتی ہے مگر کوشش اور محنت فیل نہیں ہوتی۔
٤۔ اسے خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے پر توجہ دلاٸیں ۔ خوبیوں کو اور بہتر کیا جانا اور خامیوں کو کم کرنا اور ختم کرنا ہر انسان کے اپنے بس میں ہے ۔
٥۔ اسے اس کی خامیوں پہ متوجہ کیجیے اور انہیں بہتر کرنے کے لیے ابھاریں ۔
٦۔ اسے بتاٸیں کہ انسان کو کام تعریف و توصیف سے ماورا ہو کر کرنا چاہیے ۔ مثلا کھیل میں اچھا کھیلنا یا ٹیسٹ میں نمبر لینے کی سب سے زیادہ خوشی بچے کو خود ہونی چاھیے کہ اس نے اپنی محنت سے یہ نتائج حاصل کیے نا کہ اسے دوسروں کی تعریف یا حوصلہ افزاٸی کے حصول کے لیے کامیاب ہونے کی عادت پڑ جاۓ اور جب کبھی ایسا نہ ہو تو بچہ محنت اور کوشش ہی ترک کر دے ۔
گو ایسا کرنا قطعاً آسان نہ ہو گا کیونکہ ہماری فطرت اور کلچر دونوں میں تعریف و توصیف کے لیے بہت زیادہ طلب پاٸی جاتی ہے لیکن پھر بھی آپ کی کوششوں سے بچہ کچھ توازن ضرور حاصل کرلے گا۔
٧۔ بچے کو شروع سے ہی ہر مسلے اور ہر مشکل کو ایک چیلنج سمجھ کر دیکھنے کی عادت ڈالیے ۔ اسے بتاٸیے کہ مسلہ مستقل نہیں ہوتا۔
ہر مسلے کا حل موجود ہوتاہے۔
مسلے کے ساتھ ایک موقع بھی آتا ہے
ہمیں اس مسلے کا حل نکالنا ہوتا ہے
پریشان ہونے ٗ رونے دھونے سے مسلے کاحل نہیں نکلتا بلکہ ٹھنڈے دماغ سے مسلہ کی وجہ معلوم کر کے اس کو دور کیا جاتا ہے۔
اسے بتاٸیے کہ ہر بار مسلہ حل کرکے بچہ کچھ نیا سیکھے گا جو اس کے تجربے اور اعتماد میں اضافہ کرے گا۔
٨۔ بچے کو سیکھنے کے مختلف طریقوں سے متعارف کرواٸیے تاکہ وہ مختلف طریقے اختیار کرنے پہ قادر ہو سکے۔ اس طرح اس میں اعتماد اور تخلیقی صلاحیت بھی پیدا ہو گی۔
٩۔ ناکامی کے لفظ کو سبق ٗ لیسن یا رزلٹ سے بدل دیجیے۔ بچے کا اعتقاد بناٸیے کہ ہر عمل کا اپنا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اگر نتیجہ ہماری توقع کے برعکس نہیں ہے تو لازما ہمارے کام یا عمل میں کمی رہی ہو گی ۔ ہمیں اس کمی کا کھوج لگا کر اسے دور کرنا ہے۔
١٠۔ کسی بھی کام میں بچہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپاۓ تو اسے کبھی مت کہیے کہ وہ ناکام رہا بلکہ اسے بتاٸیے اس نے اس عمل سے کچھ نیا سیکھا ہے اور اس لرننگ کی طرف بچے کو توجہ دلاٸیے۔
١١۔ گروتھ ماٸنڈ سیٹ کے حامل بچے اپنے مقصد اور طے شدہ گولز کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کو کچھ اہداف دیجیے اور ان کے حصول کے لیے کوشش پہ لگا دیجیے۔
١٢۔ بچوں سے کبھی بھی جلدی نتائج کی توقع نہ کریں بلکہ انہیں صبر کے مفہوم سے آگاہ کجیے۔ ہر کام ایک مناسب وقت کا تقاضا کرتا ہے۔
١٣۔ بچوں کے کاموں کو سراٸیں ۔ ان میں موجود خوبیوں کے بجاۓ ان کے اقدامات کی تعریف کریں۔ ان کو بتاٸیں کہ خوبیاں بھی کوشش سے ہی پروان چڑھتی اور برقرار رہتی ہیں ۔
١٤۔ بچے کو ایسا مأحول دیجیے جس میں ہر وقت اس کے سیکھنے کے لیے کچھ نیا موجود ہو ۔ایسا ماحول سکول کے علاوہ گھر میں بھی ہونا چاھیے۔
١٥۔ نتاٸج سے زیادہ کوشش کو اہمیت دیں اس لیے ناکامی کی صورت میں بچے کو تنقید کا نشانہ نہ بناٸیں ۔ غلطی کی صورت میں بتاٸیں کہ کیا غلطی ہوٸی اور اس کا سبب بچے کی توجہ ٗ رویہ ٗ برتاٶ ٗ ماٸنڈ سیٹ یا کوشش میں کمی ٗ جو بھی ہو اس طرف متوجہ کیجیے۔ غلطی سے سیکھنے کا رحجان پروان چڑھاٸیں ۔
١٦۔ بچے کو دوسروں کی ستاٸش یا پذیراٸی کا عادی نہ بناٸیں ۔ اسے کبھی مت کہیں کہ فلاں کام کرنے سے تمارے ابو یا دادا یا ٹیچر خوش ہونگے ۔ ایسی تحریک وقتی ہوتی ہے اور جب بچے کو بعد میں معلوم ہو کہ دوسرے لوگوں کو اس کی کامیابی سے زیادہ خوشی نہیں ہوٸی تو وہ نہ صرف ہرٹ ہوتا ہے بلکہ آٸندہ کوشش کرنا بھی چھوڑ سکتا ہے۔
١٧۔ اگر بچے میں کو ٸی ظاہری نقص یا کمی ہے تو اسے خود بھی تسلیم کیجیے اور بچے سے بھی تسلیم کراٸیے ۔ اسے بتاٸیے کہ اصل انسان اپنے ظاہر سے نہیں بلکہ اپنی سوچ فکر ٗ رویے اور برتاٶ ٗ اخلاق و اقدار اور کردار سے بنتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں انسان کی کوشش پہ منحصر ہیں ۔ بچے کو ظاہری شخصیت کو نمایاں کرنے کی زیادہ فکر ہونے لگے تو اسے اس فکر سے آزادی دلاٸیے۔ اسے بار بار بتاٸیں کہ محنت اور کوشش سے انسان اپنے آپ کو دنیا سے منوا سکتا ہے۔
١٩۔ناکامی اور شکست کا فرق واضح کیجیے ۔ کسی کام میں ایک دو بار ناکامی کا مطلب شکست نہیں ہوتا بلکہ جب ہم مایوس ہو کر کسی کام کو کرنا چھوڑ دیں تب ہمیں شکست ہوتی ہے۔
٢٠۔ بچے کو خطرات اور رسک لینے پر آمادہ کیجیے۔ بچے کو ایسے دوستوں کے گروپ اختیار کرنے کو کہیں جو کسی حد تک خطرپسند ہوں ٗ یعنی کچھ تخلیقی اور نیا کرتے ہوں۔البتہ بہت بڑے خطرے یا مصیبت کو سرمول لینے والے نہ ہوں۔
٢١۔ بچے کو ایک کے بعد ایک اہداف دیتے جاٸیے اور یہ عمل کبھی رکنے نہ پاۓ۔ بچوں کو بتاٸیں کہ زندگی جدوجہد کوشش اور تگ ودو کا نام ہے ۔ جو ٹھہرے زرا کچل گٸے کا مفہوم سمجھاٸیے۔
٢٢۔ کبھی بھی اپنے آپ اور اپنے کاموں سے مطمٸن ہوجانے والا رویہ نہ اختیار کرنے دیں بلکہ ہر روز خود میں اور اپنے کاموں میں بہتری لانے والا رویہ پروان چڑھاٸیں ۔ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آنے والا دن اس کے گزرے ہوۓ دن سے بہتر نہ ہو ۔ اس کو زندگی کا فسفہ بنا دیجیے۔
٢٣۔بچے میں اپنے کاموں اور اپنے رویے کی ذمہ داری قبول کرنے کا مزاج ڈویلپ کیجیے ۔ ذمہ داری قبول کرنے کے بجاۓ شکایت اور گلہ شکوہ کرنا آسان ہوتا ہے ۔ ذمہ داری قبول کرنا تعمیر ذات کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔
٢٤۔ بچوں کے شکایتی رویے کو بدلنے کی کوشش کریں ۔ انہیں بتاٸیں کہ ہم دنیا بدلنے سے زیادہ خود کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔ انہیں بتاٸیں کہ دوسروں کو بدلنے سے زیادہ ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود کو بدلنا دنیا بدلنے سے بھی زیادہ اہم اور چیلجنگ کام ہے ۔ جو خود کو بدلنے پہ قادر ہو دنیا بھی صرف وہی بدل سکتا ہے۔
٢٥۔ بچے کو بتاٸیے کہ ہمارے ساتھ اکثر جو ہوتا ہے ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اس کے بارے میں اپنے رویے اور ردعمل پہ پورا اختیار رکھتے ہیں ۔
٢٦۔بچوں کے اندر موجود اس مزاج کا تذکرہ دوسروں سے بھی کریں تاکہ بچہ اس سے حو صلہ پکڑے ۔
٢٧۔ بچے کو جرات مندی سکھاٸیے ۔ ثابت قدمی اور استقامت کے معانی سمجھاٸیے اور اس کے ساتھ اسے عظیم لوگوں کے واقعات سناٸیےکہ کیسے انہوں نے اپنی محنت اور کوشش سے دنیا کو بدلا۔ رسول ﷺ کی سیرت کے واقعات بتاٸیں کہ کیسے اللہ کے نبیﷺ ہو کر بھی آپ نے جدوجہد اور کوشش سے بھرہور زندگی گزاری ۔ انہیں شعب ابی طالب ٗ طاٸف و احد اور احزاب و تبوک کے واقعات سناٸیے۔
اسی طرح سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ فتح کرنے والا واقعہ سناٸیے۔ امیرتیمور کے بارے میں بتاٸیں کہ کس طرح ایک مکڑے سے اس نے ہمت نہ ہارنے کا سبق لیا اور پھر دنیا کا نامور فاتح بنا۔
ظہیرالدین بابر کی زندگی بھی ایسےہی کوشش اور جدوجہد پر مبنی ہے ۔ بچے کو اس کی داستان سے متعارف کرواٸیے۔
تھامس ایڈیسن کی بجلی کا بلب بنانے میں دس ہزار ناکامیوں والی کہانی سناٸیے۔ اسی طرح سچن ٹنڈولکر کا واقعہ سناٸیے کہ کیسے ایک لیجنڈ کرکٹر زندگی کے پندرہ سال مسلسل ہرروز بغیر کسی چھٹی کے نیٹ پریکٹس کرتا تھا۔
اسی طرح قیام پاکستان کی داستان سناٸیے ۔ یہ بھی برصغیر کے مسلمانوں کی مسلسل کوشش اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
٢٩۔ اس کتاب میں ہم نے جن عادات اور اسکلز کا ذکر کیا ہٕے کوشش کریں بچہ ہر وقت کم از کم ایک اسکل اور ایک عادت اپنانے کے لیے سرگرم رہے ۔ ایک عادت کو پختہ ہونے کے لیے دوماہ اور ایک اسکل ڈویلپ کرنے کے لیے بیس گھنٹے چاھیے ہوتے ہیں۔ ہم نے ان پہ تفصیل سے لکھا ہے۔ کوشش کریں بچہ ہر تین ماہ میں ایک اسکل اور ایک عادت ڈالنے کی کوشش کرے اس طرح وہ ہرسال چار اسکلز اور چارنٸی عادات کا حامل بنتا جاۓ گا ۔ یقین کرے یہ کام مشکل نہیں ہے اور بچوں کے لیے تو بالکل مشکل نہیں ہے کیونکہ اگر آپ نے انہیں مثبت اور تعمیری عادات اور اسکلز سے متعارف نہ کروایا تو منفی اور تخریبی چیزیں وہ خودسیکھ لیں گے۔
امید ہے کہ یہ طریقہ کار بچے کو گروتھ ماٸنڈ سیٹ کا حامل بنا دے گا جو اسے تعلیم ٗکھیل ٗ بزنس ٗ جاب ٗ اور تعلقات میں ساری زندگی کام آتا رہے گا۔
(یہ پوسٹ پیرنٹنگ پہ ہماری کتاب کے ایک باب کا حصہ ہے جو کچھ اضافے و ترمیم کے بعد شامل کی جاۓ گی ۔۔ طوالت کے لیے معذرت)
ثاقب محمود عباسی
ثاقب محمود عباسی
Very informative article! As you said in the blog, people should keep a growth mindset to be successful in a person's life. It comes through repetition and practice. Keep sharing! Live with a growth mindset.
ReplyDelete