سلطان محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ (Sultan Muhammad II the conqueror of Constantinople)


سلطان محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ
Sultan Muhammad II  the conqueror of Constantinople

دنیا کی ان عظیم شخصیتوں میں جنہوں نے اپنے شاندار اور محیرالعقول کارناموں کی بدولت تاریخِ عالم پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ٗ ایک اہم اور خاص شخصیت سلطان محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کی بھی ہے۔ اپنے شاندار اور حیرت انگیز کارناموں سے جنہوں نے اسلامی اور عالمی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
سلطان محمد فاتح نے ترکوں کی کمزور سلطنت جس کی بنیاد عثمان خان نے رکھی تھی ٗ مظبوط بنیادوں پر قاٸم کیا اور شدید مشکلات اور مسیحی قوتوں کی زبردست مزاحمت کے باوجود جس طرح اسلام کے قدم یورپ میں جمادیے ٗ تاریخ کا کوٸی طالب علم انہیں فراموش نہیں کرسکتا۔
اس مردِ مجاہد نے مشکلات کی پروا نہ کرتے ہوۓ اس وقت کی رومی سلطنت سے ٹکر لی اور اس کے دارلحکومت قسطنطنیہ کو ۔۔جو اس وقت مشرقی یورپ کا سب سے مستحکم ترین شہر تھا اور جس پر مسلمان گزشتہ آٹھ صدیوں سے قبضہ کرنے کی کوشش کررہے تھے ٗ مگر کامیاب نہ ہوسکے تھے ٗ اپنے فولادی ارادے ٗ بےپایاں جرات ٗ مستقل مزاجی اور اولوالعزمی کی بدولت فتح کرکے اسلامی مملکت کا حصہ بنادیا۔ اس طرح وہ اس حدیث کے مخاطب ٹھہرے جس میں قسنطنطنیہ کو فتح کرنے والے لشکر اور اس کے امیر کو جنت کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ” تم یقینناً قسطنطنیہ فتح کرلو گے ۔ وہ امیر بھی کیا باکمال ہو گا اور وہ لشکر بھی کیا باکمال ہوگا ۔“
سلطان محمد کاعہد عثمانی ترکوں کا سب سے طاقتور عہد شمار ہوتا ہے۔ سلطان نے اپنی ذہانت اور لیاقت و قابلیت سے قسطنطنیہ سمیت کٸی علاقوں کو فتح کرکے پورپ میں اسلام کے پاٶں جما دیے وہیں انہوں نے سلطنت کا نظم و نسق اور انتظام و انصرام نہایت مستحکم بنیادوں پر قاٸم کیا ۔ دورِ نو کے تقاضوں کے مطابق قوانین بناۓ اور فنِ حرب میں بھی اپنی سلطنت کو نمایا ں ترقی دی۔
سلطان محمد فاتح تاریخ کی ایک حیران کن شخصیت ہیں ۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں محض انیس سال کی عمر میں سلطان بن کر تٸیس سال کی عمر میں قسطنطنیہ جیسا شہر فتح کرنے والے عظیم فاتح سے واقف ہو سکیں ۔ ذیل میں ہم ان کے بچپن کے حالات پیش کر رہے ہیں۔
سلطان محمد ثانی کی ولادت 20 اپریل 1429 کو ہوٸی ۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی نے ان کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا ۔ مملکت کے بہترین علما و فضلا اور اتالیقوں کو گراں قدر مشاہروں کے عوض محمد کی تربیت و تعلیم کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں محمد کو اس زمانے کے علوم و فنون پر گہرا عبور حاصل ہوا۔ اس کا ادبی مذاق اچھا تھا۔ نہ صرف مشرقی بلکہ مغربی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر کمال عبور حاصل کیا۔ ترکی زبان کے علاوہ عربی ٗ فارسی ٗ یونانی ٗ اور اطالوی زبانوں سے نہ صرف گہری واقفیت حاصل کی بلکہ ان میں اچھی طرح گفتگو بھی کرسکتا تھا۔
تاریخ سے بہت زیادہ دلچسپی تھی ۔ نامور انسانوں اور بہادر لوگوں کے حالات زندگی اور سوانح بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ فنون لطیفہ بالخصوص موسیقی اور تصویر کشی کا بھی شاٸق تھا ۔ ادب سے گہرا لگاٶ تھا ۔ نہ صرف مختلف شعرا کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے بلکہ خود اپنے جذبات کو اشعار کی صورت بخوبی ادا کر سکتا تھا۔
علم وادب سے اپنے گہرے لگاٶ کے باوجود جتنی دلچسپی اسے جنگی علوم و فنون سے تھی کسی اور علم سے نہ تھی۔ اپنے وقت کے بہترین اتالیقوں اور ماسٹروں سے شمشیرزنی ٗ تیراندازی ٗ نیزہ بازی اور گھڑ سواری سیکھی اور ان میں کمال مہارت حاصل کی۔ بعد میں بھی اسے جب بھی کسی نٸ جنگی ایجاد کا علم ہوتا وہ فورا اس کے متعلق مفصل معلومات کے حصول میں لگ جاتا۔
بچپن کی اعلیٰ تربیت اور بہترین اساتذہ کے ساتھ نے اسے سادہ مزاج ٗ جفاکش اور سخت جان بنا دیا تھا۔ عیش و آرام اور لذت کوشی سے دور کا واسطہ نہ رکھتا تھا۔ نوعمری میں محمد نے اپنا بیشتر وقت فنونِ جنگ سے متعلق معلومات حاصل کرنے اور سیروشکار میں گزارا۔ اس کا دسترخوان بہت ہی مختصر اور خوراک نہایت سادہ ہوتی ۔ اس نے کسی شخص کو اپنا ندیم و جلیس نہ بنایا اور نہ کبھی راگ و رنگ اور عیش و عشرت کی مجالس میں شرکت کی۔
وہ تنہاٸی پسند انسان تھا جسے فطری اور قدرتی نظاروں سے بے پناہ دلچسپی تھی۔اس کی دلچسپی کا دوسرا اور اصل میدان تلواروں کی جھنکار ٗ گھوڑوں کی ٹاپوں اور محاربین کے پرجوش نعروں سے گونجتاجنگ کا میدان ہوتا تھا۔
محمدثانی کا باپ سلطان مراد ثانی جلیل القدر عثمانی فرمانروا تھا ۔ اس کی ماں مورخین کے مطابق کرسچیٸن تھی ۔ اس طرح اس میں مشرق و مغرب دونوں خطوں کی اعلیٰ صفات کا امتزاج پایا جاتاتھا۔ یہ امر مسلّم ہے کہ خاندان اور وراثت کا اثر انسان کے عادات و خصاٸل پر ضرور پڑتا ہے۔ محمد ثانی کو بھی اپنے والد سے بہادری ٗ شجاعت ٗ صبرواستقلال اور عزم و حوصلہ جیسی صفات ورثے میں ملی تھیں ۔
محمدثانی کو ٗجب وہ محض بارہ سال کا تھا اپنے والد سلطان مراد ثانی کے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے سبب تخت پر بیٹھنا پڑا ۔ اس طرح کم عمری ہی میں اسے سلطنت کا نظم و نسق چلانے کا کافی حد تک عملی تجربہ ہوگیا تھا ۔ محمد ثانی زیادہ تر اپنی راۓ پر بھروسہ کرتا اور اپنے باپ کے وزیروں مشیروں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتا تھا۔ یوں انہوں نے مل کر سلطان مراد اول سے امورِ مملکت دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کی کہ آپ کا بیٹا ابھی ناتجربہ کار اور سلطنت کے خارجی و داخلی امور سے ناواقف ہے۔ نیز جنگی امور کا بھی اسے کوٸی خاص تجربہ نہیں۔
یوں اسے تخت سے معزول ہونا پڑا تاہم یہ سارے واقعات اسے بہت سی فراست و تجربے سے نواز گٸے۔محمد جب باپ کی وفات کے بعد انیس سال کی عمر میں دوبارہ سلطان بنا تو تب تک اس نے نہ صرف اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلی تھی بلکہ خود کو سلطنت کے امور کا ماہر بھی بنا لیا تھا۔
نوعمر سلطان نے عنفوان ِ شباب میں خود کو مظبوط جسم کا مالک ٗ صاٸب بصیرت ٗ ارادے کا دھنی ٗ اعلیٰ درجہ کا شاہ سوار ٗ فنون حرب کا ماہر ٗ ترقی کا دلدادہ ٗ بیدار مغز ٗ مصاٸب و شداٸد کو خاطر میں نہ لانے والا ٗ سلطنت کے جملہ امور سے کماحقہ واقف اور سریع الفہم انسان بنا لیاتھا ۔ آگے چل کر یہ تربیت اس کے بہت کام آٸی اور محض تٸیس برس کی عمر میں اس نے قسطنطنیہ فتح کرلیا۔ فتح قسطنطنیہ کا احوال بھی نہایت دلچسپ اور سلطان کی عظمت ٗاولوالعزمی ٗ ٗ مضبوط ارادےاورجنگی مہارت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
عظیم انسانوں کی زندگیوں کے مطالعے سے جو چند باتیں آشکار ہوتی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

ایک یہ کے عظیم لوگوں کو بچپن میں تربیت و تعلیم کے اچھے مواقع اور بہترین ماحول ملتا ہے ۔
عظیم لوگ اپنے بچپن اور لڑکپن سے ہی اپنے لیے واضح اور صاف مقصد رکھتے ہیں۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے درکار ضروری اوصاف و کمالات خود میں پیدا کرتے اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔

سلطان محمد فاتح کی زندگی ان تینوں باتوں کی صداقت پہ گواہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے والدین یہ سمجھ لیں کہ بچپن کا ماحول اور تربیت و تعلیم زندگی میں بڑا مقام حاصل کرنے کے لیے فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ اپنے بچوں کو شاہی عیش و آرام اور سہولیات فراہم کریں تاہم آپ ان کی تربیت شہزادے شہزادیاں سمجھ کر ضرور کریں جنہوں نے بے شک کسی مملکت کا انتظام و انصرام نہ سنبھالنا ہو مگر وہ اتنے قابل اور ذمہ دار ضرور ہوجاٸیں کہ قانونی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اپنی زندگی کی سلطنت کے جملہ امور پہ کماحقہ عبور رکھتے ہوں۔
(پیرنٹنگ پہ ہماری کتاب کے باب ”عظیم لوگوں کے بچپن کے حالات“ سے اقتباس )

ثاقب محمود عباسی

Comments

Post a Comment